اسلام آباد ہائی کورٹ نے لاپتا افراد کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ لوگوں کی گمشدگی حکومتی نااہلی اور ریاست کی ناکامی ہے۔ عدالت نے متنبہ کیا ہے کہ اس کے احکامات پر عمل نہ ہوا تو سخت فیصلہ دیا جائے گا۔ عدالت نے کہا ہے کہ سیکورٹی ایجنسیاں شہریوں کے تحفظ میں ناکام ہو گئیں۔ شہریوں کو اٹھائے ہوئے چھ چھ برس ہو گئے۔ یہ معاملہ اتنا نازک ہے کہ زیادہ دبائو کی صورت میں لاش ملنے کا خدشہ ہوتا ہے اس لیے لاپتا افراد کے اہلخانہ عموماً زیادہ آگے نہیں آئے۔ عدالت نے سخت ریمارکس تو دیے ہیں لیکن وہ کون سے سخت فیصلے ہوں گے کہ ملک بھر سے ہزاروں لاپتا افراد بازیاب ہو جائیں گے۔ عدالتیں اسی قسم کے انتباہ دیتی رہتی ہیں افراد لاپتا ہوتے رہتے ہیں۔ یہ بات بہرحال خوش آئند اور امید افزا ہے کہ عدالتیں اس معاملے میں کوئی رعایت دینے کو تیار نہیں۔ اسی قسم کے ریمارکس سندھ ہائیکورٹ نے بھی دیے ہیں کہ بتایا جائے کہ لاپتا افراد اب تک کیوں بازیاب نہیں کرائے جا سکے۔ یہ ریمارکس عادل نامی نوجوان سمیت دیگر لاپتا افراد کے کیس کی سماعت کے دوران دیے گئے ہیں۔ اسی طرح اسلام آباد ہائیکورٹ کے ریمارکس میں ایک جملہ قابل غور ہے کہ لوگوں کی بازیابی پولیس کے بس کی بات نہیں۔ یعنی یہ پولیس سے اوپر کا معاملہ ہے۔ عدالتیں بھی کوشش ہی کر سکتی ہیں۔ لیکن لوگوں کو لاپتا کرنا ریاست کی ناکامی اور حکومت کی نااہلی کا واضح اعلان ہی تو ہے ورنہ لوگ لاپتا کیوں ہوتے۔