چین: حکومت کی جانب سے ایغور مسلم خواتین کی جنسی استحصالی

779

چین اور آبادیات پر تحقیق کرنے والے ماہرین کے مطابق سن 1949، عوامی جمہوریہ چین کے قیام کے بعد حکومت نے سنکیانگ کے علاقے میں مہم کا ایک سلسلہ شروع کر رکھا ہے جس میں ایغور مسلمانوں کو ایغوروں کی زیادہ آبادی کی حیثیت سے نشانہ بنایا جارہا ہے۔

سرکاری دستاویزات کے مطابق چینی حکومت کا مشن منظم طریقے سے چینی نسل ہان (غیر ملسموں) کو ایغور اکثریت والے علاقے میں آباد کرنا ہے جہاں ہزاروں ایغور خواتین کو ہان مردوں سے شادی کرنے اور / یا ان کے ساتھ رہنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ اس علاقے میں حکومت کی خاندانی منصوبہ بندی کی پالیسیوں پر 2017 کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق خاندانی منصوبہ بندی [پالیسیوں] کی خلاف ورزی کرنے والے ایغوروں پر مختلف ریاستی حملے کیے جارہے ہیں جس میں حراستی کیمپ میں طویل مدت تک رکھنا، گھروں میں گھُس کر بچوں کو ڈھونڈنا اور ایغور خواتین پر کڑی نگرانی رکھنا شامل ہے۔

متعدد ایغور خواتین کے بیانات سامنے آچکے ہیں جو انسانی حقوق کی تنظیموں اور تحقیقی اداروں کی رپورٹس کی حمایت کرتی ہیں۔ حراستی کیپمپ میں 2 ماہ گزارنے والی زمرت داؤوت کا کہنا تھا ہم نے اپنے جسم کا ایک حصہ کھو دیا۔ خواتین کی حیثیت سے اپنی شناخت کھو بیٹھیں۔ ہم کبھی بھی بچے پیدا نہیں کرسکیں گی۔ انہوں نے ہمارے ایک عضو کو کاٹ دیا۔

ایغوروں کی تعداد کو روکنے والے حکومتی انتظامات کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ ایغور خواتین کو مفت اسقاطِ حمل اور نس بندی کے طریقہ کار کی زبردستی پیش کش کی جارہی ہے۔

چین سے شائع ہونے والی سنکیانگ میں آبادی کی تبدیلی سے متعلق تجزیہ رپورٹ ان الزامات کی تردید کرتی ہے اور ایغور مسلم آبادی کے خاتمے کو ‘مذہبی انتہا پسندی کے خاتمے” اور “بڑھتی آبادی کو روکنے” سے منسوب کرتی ہے۔

2020 میں اے پی کی ایک تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایغور خواتین کو حمل کی باقاعدہ جبراً جانچ ، IUDs ، نس بندی اور اسقاط حمل کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ملک بھر میں IUDs اور نس بندی کا استعمال کم ہوا ہے لیکن اس کے باوجود سنکیانگ میں یہ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔