سانپ، نیولا اور سپیرا

426

پاکستان میں حکومت اور حزب اختلاف کی لڑائی کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی قدیم نیولے اور سانپ کی لڑائی تاریخ ہے، دونوں میں غیر معمولی مماثلت بھی ہے۔ ہماری روایت رہی کہ جب یہ لڑائی شدید ہوجاتی ہے اور فاتح کا تعین مشکل ہوجاتا ہے تو سپیرا خود اپنی لاٹھی لیکر میدان میں اُترتا ہے اور ایسے سلیقے سے فیصلہ کن ضرب لگاتا ہے کہ لاٹھی کو زد نہیں پہنچتی اور سانپ ڈھیر ہوجاتا ہے۔ حالیہ لڑائی بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ اس مرتبہ سانپ سپیرے ہی کی آستین سے نکلا ہے اور نیولے کے بجائے سپیرے کی لاٹھی سے چمٹ گیا ہے، جس کی وجہ سے عارضی طور ہی سہی مگر سپیرا سٹپٹا گیا ہے! اس تمام کشاکش میں سپیرے کے ماتھے کی سلوٹیں اور اس کا زرد چہرہ واحد خوش نما منظر ہے، ورنہ داستان پرانی ہے اور کہانی مکرر ہے۔
تماش بین اب ان لڑائیوں سے بیزار نظر آتے ہیں، لیکن زعماء جن بیانیوں کا پرچار کررہے ہیں اور جن مضحکہ خیز خواہشات کا اظہار کررہے ہیں ان سے محسوس ہوتا ہے کہ ان کو عوام کی نفسیات کا ادراک نہیں۔ ایک فریق کی خواہش ہے کہ عوام اس کو قائد انقلاب مان لیں، گزشتہ تین عشروں سے جس نظام کی وہ آبیاری کرتے رہے ہیں اور اس سے مستفید و مستفیض ہوتے رہے ہیں اب وہ چاہتے ہیں کہ عوام اسی نظام کو تہہ وبالا کردیں۔ ان کی خواہش ہے کہ عوام بھول جائیں کہ وہ کس کے کاندھوں پر سوار ہوکر اقتدار کی سیج پر براجمان ہوئے، کس سے سمجھوتا کرکے بیرون ملک گئے، پھر 2013 میں کس سے ساز باز کرکے وزیر اعظم بنے اورکس کے ’مشوروں‘ پر اپنے وزراء اور معاونین کو فارغ کرتے رہے، عوام یہ سب فراموش کرکے ان کی ہزاروں میل دور سے کی جانے والی تقریروں کے ذریعے تاریخ کا دھارا تبدیل کرنے کی کوشش پر یقین کرلیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اصولو ں کی خاطر اقتدار کی قربانی دی اور اپنی بیٹی کے ہمراہ پابند سلاسل ہوکر جمہوریت اور آئین کی بالادستی کے لیے اپنے عزم کو ثابت کیا، وہ چاہتے ہیں کہ اس ’قربانی‘ کے بعد بھی جن کرداروں کے خلاف انہوں نے جدوجہد شروع کررکھی تھی انہی کی مدت ملازمت میں توسیع کو سند فراہم کرنے کو بھی عوام غلطی سمجھ کر معاف کردے۔
دوسرے فریق نے آزمودہ نسخہ اپنایا ہے، وہ قوم کو سمجھا رہے ہیں کہ علاقائی صورتحال انتہائی نازک ہے، قومی سلامتی کے حساس امور احتجاجوں سے متاثر ہوسکتے ہیں، ہمارا پڑوسی ملک سازشیں کررہا ہے اور ہمارے ادارے اس وقت غیر معمولی خطرات سے نبٹ رہے ہیں۔ پاکستان کا شاید ہی کوئی حکمران ہو جس نے یہ چار جملے اپنے خلاف احتجاج روکنے کے لیے استعمال نہ کیے ہو۔ بعض اوقات تو حیرانگی ہوتی ہے کہ ریاست کے کرتا دھرتا کیسے نالائق ہیں جو 70سال سے صورتحال کو بہترکرنا تو دور کی بات ’نزاکت‘ کے مرحلے سے ہی نکالنے میں ناکام ہیں، حکمران یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ غداری کی یہ تلمیحات اور مخالفین پر دشمنوں سے ساز باز کے الزام اتنے بار دہرائے جاچکے ہیں کہ یہ اپنے حیثیت کھوچکے ہیں، جن خطرات سے عوام کو ڈرا کر اداروں کے تجاوزات کو جواز فراہم کیا جاتا ہے، اگر اداراے داخلی لڑائیوں میں اپنی توانائی خرچ کرنے کے بجائے ہمہ وقت ان خطرات کی بیخ کنی میں مصروف رہیں تو یہ خطرات اپنی موت آپ مرجائیں۔
چند نادانوں کے سوا جو ان بیانیوں پر یقین رکھتے ہیں اکثریت اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ سانپ اور نیولا دونوں مجبور ہیں، مجبوری کا تو عالم یہ ہے کہ سپیرے کے جادو کی چھڑی بھی اس کی اپنی ملکیت نہیں اس کے بدیسی آقا کی ہے، لہٰذا ان کرداروں کا عوام کے حقوق سے کوئی تعلق ہے نہ ملک کی فلاح سے کوئی واسطہ، اگر حالات میں حقیقی تبدیلی واقعی مقصود ہے تو اس پورے اکھاڑے کو تبدیل کرنا ہوگا۔