اسامہ قتل کیس: گرفتار5 پولیس اہلکاروں کا3روزہ جسمانی ریمانڈ منظور

663

اسلام آباد: 22 سالہ طالب علم اسامہ ندیم کے قتل میں گرفتار پانچ پولیس اہلکاروں کا تین روزہ جسمانی ریمانڈ دے دیا گیا ہے جبکہ سینٹ کمیٹی نے بھی اسامہ قتل  کا نوٹس لے لیا ہے  اور اس حوالے سے چھ جنوری کو اجلاس بھی طلب کرلیا گیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق اسلام آباد پولیس کے مطابق پولیس کی فائرنگ سے 22 سالہ نوجوان کی ہلاکت کے واقعے میں ملوث تمام پولیس اہلکاروں کو حراست میں لے لیا  ہے اور عدالت میں آج پیش کردیا جبکہ تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ پانچوں اہلکاروں کی ایک ہی گاڑی میں ڈیوٹی تھی جس پر افسر نے عدالت سے ریمانڈ کی استدعا کی گئی جس کو منظور کرلیا گیا۔

عدالت نے استفسار کیا کہ کیا واردات میں استعمال ہونے والاپستول برآمد کرلیا ہے؟ تفتیشی افسر نے بتایا کہ تاحال برآمدگی نہیں ہوئی، جسمانی ریمانڈپربرآمدگی کریں گے، جج نے ملزمان سے استفسار کیا کہ آپ کچھ کہناچاہتےہیں؟ گرفتار پولیس اہلکاورں نے جواب دیا کہ ہم کچھ نہیں کہنا چاہتے۔

نوجوان اسامہ کے کیس کی تفتیش کیلئے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بھی تشکیل دی گئی ہے جبکہ جے آئی ٹی انسداد دہشتگردی ایکٹ کے سیکشن 19 کے تحت چیف کمشنر نے تشکیل دی ہے جس کے سربراہ ایس پی صدر سرفراز ورک ہیں اور  اس میں کل 7ممبران ہوں گے جس میں آئی ایس آئی، ایم آئی اور آئی بی کا بھی ایک ایک نمائندہ جے آئی ٹی میں شامل ہے۔

ڈی ایس پی رمنا، ڈی ایس پی انویسٹی گیشن اور ایس ایچ اور رمنا بھی جے آئی ٹی کا حصہ ہیں اور  ٹیم کو جلد از جلد اپنی تحقیقات مکمل کر کے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

دوسری جانب اسامہ ندیم کے قتل واقعہ سینیٹ کی انسانی حقوق کمیٹی میں بھی اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جبکہ کمیٹی کے چیئرمین  مصطفیٰ نواز کھوکھرکا کہناتھا کہ مہلک قسم کے ہتھیار آخری آپشن ہونے چاہئیں اور یہ معاملہ 6 جنوری کو ہونے والے اجلاس میں اٹھایا جائے گا۔

مزید پڑھیں: اسامہ قتل کیس، چیف کمشنر نے جے آئی ٹی تشکیل دیدی

خیال رہے اسلام آباد کے سیکٹرجی10 میں اے ٹی ایس اہلکاروں کی فائرنگ سے اسامہ نامی طالبعلم ہلاک ہوگیا تھا جس کی ایف آئی آر تھانہ رمنا میں درج ہے جبکہ واقعے میں ملوث 5 پولیس اہلکاروں کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق اہلکاروں نے 22 گولیاں فائر کی تھیں اور گاڑی کی فرنٹ اسکرین پر بھی گولیوں کے نشانات تھے جبکہ مقتول اسامہ کے والد کی مدعیت میں ہلاک کا مقدمہ 7 اے ٹی اے کے تحت درج کر لیا گیا ہے اور ایف آئی آر میں 302 کی دفعات میں لگائی گئی ہیں۔

مقتول اسامہ کے والد  کا کہنا تھا کہ اسامہ ندیم کی ایک روز قبل پولیس اہلکاروں سے تلخ کلامی ہو گئی تھی اور اس بات کا ذکر اسامہ نے مجھ سے کیا تھا اورپولیس اہلکاروں نے ان کے بیٹے کو مزہ چکھانے کی دھمکی دی تھی جبکہ گذشتہ رات ان پولیس اہلکاروں نے میرے بیٹے کی گاڑی کا پیچھا کر کے اس پر فائرنگ کر دی جس سے وہ ہلاک ہوگئے۔

واضح رہے سلام آباد پولیس کے مطابق پولیس کی فائرنگ سے جمعہ اور ہفتے کی درمیانی رات  نوجوان کی ہلاکت کے واقعے میں ملوث تمام پولیس اہلکاروں کو حراست میں لے لیا گیا ہے جبکہ آئی جی اسلام آباد عامر ذوالفقار کا کہنا تھا کہ رات پونے دو بجے جب ڈکیتی کی واردات کی اطلاع ملی تو پولیس نے ڈاکوؤں کا تعاقب کیا، ڈاکو سفید گاڑی میں فرار ہورہے تھے۔

اسامہ ندیم کی گاڑی کے شیشے کالے تھے اور پولیس نے سائرن بجا کر اور لائٹس جلا کر گاڑی کو روکنے کی کوشش کی مگر پانچ سے چھ کلومیٹر تک اس گاڑی کا پیچھا کرنے کے بعد پولیس اہلکاروں نے فائر کھول دیا جو کہ ان کی غلطی تھی۔

واقعے کے بعد لواحقین نے مقتول کی میت سری نگر ہائی وے پر رکھ سڑک کو بلاک کر دیا جس سے ٹریفک جام ہوگئی اور احتجاجی مظاہرے میں سول سوسائٹی، تاجروں اور عام شہریوں نے بھی شرکت کی ہے۔