ـ16دسمبر1971ء ایک رِستا ناسور

225

16دسمبر1971ء پاکستان کی یادوں میں سے ایک ایسی یادڈھاکا ہے جو ہر سال بھڑک کرٹھنڈی ہو جاتی ہے ۔ میری ڈائری کے چند زخمی اوراق میں سے یہ یادیں مجھے بہت تکلیف دیتی ہیں ۔ کاش یہ دن ہماری یادداشت سے محو ہوجائے ۔ کاش یہ دن دنیا کے کلینڈر میں آیا ہی نہ ہوتا ۔ کاش ہم اپنے اس ٹوٹے بازو کو کسی معجزاتی جراحی عمل سے دوبارہ جوڑ سکیں ۔ کتنے کاش ہیں جو ہمارے دل سے آہ بن کر نکلتے ہیں۔ مگر پھر لب سل جاتے ہیں ۔ یہ زخم اب رستے رستے ناسور بن گیا ہے۔ ہر سال چند دن اس زخم کو یاد کیا جاتا ہے‘ اخباروں میں اس کا تذکرہ ہوتا ہے پھر سب اسے بھول جاتے ہیں خصوصاً ہماری ہر آنے والی حکومت سقوط ڈھاکا میں محصور پاکستانیوں کے نام پر ووٹ لے کر آتی ہے پھر اپنے پورے دور حکومت میں اس کا نام بھی اپنی زبان پر نہیں لاتی کیوں کہ وہ ووٹ لے کر اپنا مقصد حاصل کرچکی ہوتی ہے۔
49 سال سے یہی کھیل جاری ہے ۔کیسا دُکھ ہے جو کم از کم مجھے تو چین نہیں لینے دیتا ۔ میں گزشتہ تینتالیس سال سے مشرقی پاکستان کے عشق میں اپنی ہر خوشی تج چکی ہوں ۔ نہ جانے میرے دل پر سقوط ڈھاکا کا صدمہ کیوں اتنا شدید ہے ۔ میں اس ظلم کو کیسے بھول سکتی ہوں کہ جس وطن کی تشکیل اور بنیاد ڈھاکا میں رکھی گئی‘ جس وطن کے حصول میں بنگالیوں نے ہر قسم کی قربانیاں دیں‘ جن بنگالیوں نے1965ء میں بھارتی جارحیت کی پسپائی کو یوم دفاع پاکستان بنایا ۔ اپنی محب وطن ہم وطنوں کے خلاف1971ء میں فوج بھیجی گئی ۔ کیا اپنے گھر میں دو بھائیوں کے درمیان غلط فہمی ہو جائے تو باپ کو آپس میں صلح کرانے کے بجائے گولہ بارود سے بھائی کو ختم کر دینا چاہیے۔ حکمراں بھی ملک کے عوام کے باپ ہوتے ہیں ۔ یہ کیسا ظالم باپ تھا جس نے خود اپنا بازو توڑ کر دوسرے کے حوالے کر دیا ۔ ایسا ظالم باپ جو ظلم بھی کرتا ہے اور مظلوم کو فریاد بھی نہیں کرنے دیتا۔ مظلوم کی کسی بات کو کسی شکایت کو سننے کے بجائے اس کی آواز دبا کر ختم کرنا چاہتا ہے ۔
16دسمبر1971ء ایک بے ضمیری اور بے غیرتی کا دن تھا جس کا سب سے زیادہ نقصان وہاں کے اردو بولنے والے تین لاکھ بہاریوں کا ہوا جو محب وطن پاکستانی ہیں۔ مگر49 سال سے کوئی پاکستانی حکومت ان کو اپنانے کے لیے تیار نہیں، ان کی کوئی شناخت نہیں۔ نہ وہ پاکستانی ہیں نہ بنگلا دیشی ۔8×8 کے66کیمپوں میں مقیم محصور ہیں۔ یہ تین لاکھ لوگ پاکستان جانے کی خواہش میں روز مرتے ہیں روز جیتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے والدین نے1947ء میں شعوری طور پر حب الوطنی سے ہندوستان کے مقابلے میں پاکستان کا انتخاب کیا تھا اور1971ء میں بھی بھارت اور بنگلا دیش کے بجائے پاکستان کا پرچم بلند کیا اور ابھی تک اسے سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ کیا ظلم ہے کہ ان محب وطن پاکستانی مسلمانوں کو حب پاکستان کی سزا دی جا رہی ہے۔ ان کے پیر رکھنے کے ایک انچ زمین بھی ان کے پاس نہیں۔ پاکستان سے محبت کرنے والے اب بھی بہاری لہجے میں اردو بولتے ہیں۔ وہ پاکستان کی محبت میں اب بھی محصور ہیں انہیں آزاد شہریوں کے حقوق حاصل نہیں کیوں کہ وہ بنگلا دیشی نہیں ۔
مشرقی پاکستان میں مسلم لیگ ایک جماعت کی حیثیت سے1906ء سے وجود میں آ چکی تھی اور وہاں کے مسلمانوں نے پاکستان کے حق میں متحد ہو کر ووٹ دیا تھا۔ پاکستان کی تاریخ میں ہونے والا پہلا انتخابی عمل صاف شفاف تھا۔ مگر اس کے نتائج بڑے ہولناک اور المناک ہوئے ۔ دسمبر 1970ء کے انتخابی نتائج میں مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن نے اور مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو نے کامیابی حاصل کی۔ یہ انتخابات فوجی جنرل یحییٰ خان نے کرائے تھے۔ یحییٰ خان انتخابات کے بعد ڈھاکا گئے اور انہوں نے 9 مارچ1971ء کو قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس کے انعقاد کی خوش خبری سنائی مگر اسلام آباد واپس آ کر ان کی نیت بدل گئی۔ اجلاس ملتوی کر کے نئی شرائط عائد کر دیں ۔ یحییٰ خان کی اس وعدہ خلافی نے مشرقی پاکستان سے کامیابی حاصل کرنے والے امید واروں میں مایوسی پھیل گئی۔ اسی مایوسی نے ایک نئے طوفان کو جنم دیا۔ اس طوفان کو مذاکرات سے ختم کیا جا سکتا تھا مگر ناسمجھ حکمرانوں نے اپنے نا اہل مشیروں کے مشورے سے اس طوفان کو دبانے کے لیے25 مارچ 1971ء کو پورے مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن شروع کر دیا ۔ سیاست دانوں نے انتہائی بے ضمیری کا ثبوت دیا۔ روز نامہ جنگ کی24 دسمبر2013ء کی اشا عت میں محمد بلال غوری نے لکھا ہے کہ جنگ اتنا اہم معاملہ ہے کہ اسے محض فوج پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ امریکا نے جب ویت نام پر حملہ کیا تو بیس ہزار امریکیوں نے اس جنگ میں فوجیوں کے شانہ بہ شانہ ہتھیار اٹھائے مگر پاکستان کے دانشوروں کا خیال ہے کہ جب پاکستان دو لخت ہونے لگا اور بھارت نے مکتی باہنی کی آڑ میں جارحیت کی تو اسلامی جمعیت طلباء کے نوجوانوں نے البدر و الشمس کی صورت میں ملیشیا فورس بنا کر نا قابل تلافی جرم کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مشرقی پاکستان میں انسانیت تار تار ہوئی‘ یہ بھی سچ ہے کہ قومیت کا آسیب لاکھوں انسانوں کو نگل گیا‘ عصمتیں پامال ہوئیں مگر یہ زیادتیاں پاک فوج اور اس کے ساتھ لڑنے والے شہری سرفروشوں نے نہیں کیں بلکہ مکتی باہنی نے کیں۔ ہندوستان کی مکتی باہنی 1971ء سے بہت پہلے بن چکی تھی۔ بنگالی عوام اس کے فریب میں آ کر اسلام سے پہلے دور سیکولر ازم اور اشتراکیت کے فریب میں پھنس چکے تھے۔ پاکستان کے مشرقی حصے پر ہندوستان کے یہ ایجنٹ اپنے پنجے گاڑ چکے تھے۔ ہندو اساتذہ مشرقی پاکستان کے اسکولوں‘ کالجوںمیں اسلام اور مغربی پاکستان کے خلاف نفرت کے بیج بو رہے تھے ۔ مشرقی پاکستان میں اسلامیات پڑھانے والے بھی ہندو اساتذہ مقرر کیے جانے لگے تھے ۔
سقوط ڈھاکا میں مظلومیت کا پرچار کرنے والے بنگالیوں نے بھی بہت ستم ڈھائے۔ مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن سے پہلے میجر ضیاالرحمن نے اپنے حلف سے رو گردانی کی، کرنل جنجوعہ کو چٹاگانگ سرکٹ ہائوس لے جا کر بیوی بچوں سمیت ذبح کر ڈالا اور کئی دن تک اردو بولنے والوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا جاتا رہا۔ بنگالی قوم پرستوں نے بھی انسانیت سوز مظالم ڈھائے چٹاگانگ‘ جیسور‘ سانتاہر اور کھلنا میں اردو بولنے والوٍں کو چن چن کر مارا گیا۔ ایک موقع پر پاکستانی فوج کارروائی کے لیے گئی تو بنگالی باغیوں کے ہاتھوں ماری گئی ان فوجیوں کی لاشوں سے دریا میں پانی کا بہائو رک گیا اور پانی سرخی مائل ہو گیا۔ شرمیلا بوس نے Dead Reckoning میں لکھا ہے کہ ہزاروں غیر بنگالیوں کو المناک حیوانیت کے ساتھ ہلاک کیا گیا اور اس ظلم کا کبھی ان سے حساب نہیں لیا گیا نہ ان کے خلاف بغاوت اور غداری کے مقدمات قائم کیے گئے۔ اس فوجی آپریشن سے ایک بڑا نقصان یہ ہوا کہ بنگالیوں کو مکتی باہنی اور ہندو ایجنٹوں کے پڑھائے ہوئے اس سبق کو صحیح ثابت کرنے میں ان کی ذہنی رو کو اسی رُخ پر موڑ دیا گیا جو انہیں کئی سال سے سمجھایا جا رہا تھا کہ مغربی پاکستان کے مسلمان ان کے خلاف ہیں۔ چنانچہ مکتی باہنی کے پڑھائے سبق کی بنا پر تعلیمی اداروں میں نوجوان اشتراکیوں اور دہریوں کا نشانہ بننے لگے۔ مغربی پاکستان سے جو نااہل حکمرانوں نے چار ڈویژن فوج مشرقی پاکستان بھیجی تھی ان میں فوجیوں نے مارچ سے اگست تک صرف پانچ ماہ میں پورے مشرقی پاکستان کے ہر گھر پر پاکستان کا جھنڈا لہرا دیا۔ یہی وہ وقت تھا جب جنرل شوکت رضا نے جنرل نیازی کے سامنے اپنی سفارشات پیش کرتے ہوئے کہا کہ فوج نے اپنا کام مکمل کر لیا ہے اب ضروری ہے کہ سیاسی عمل شروع کیا جائے تاکہ سول انتظامیہ اپنی ذمے داریاں سنبھال لے۔ جنرل نیازی ان کی اس بات سے سخت خفا ہوئے‘ جب جنرل شوکت رضا نے سخت الفاظ میں اپنا مؤقف بیان کیا تو انہیں کمان سے ہٹا دیا گیا۔
لیفٹیننٹ کرنل عادل اختر کے مطابق 16 دسمبر مغربی پاکستان کے سیاسی رہنمائوں کی بے ضمیری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ فوج تیرہ دن تک بے مثال شجاعت اور عزیمت کے ساتھ لڑتی رہی۔ بھارتی فوج ڈھاکا ائر پورٹ پر اترنے کی جرأت نہ کرسکی۔ چودھویں روز یعنی 16 دسمبر کی صبح فیلڈ ٹیلی فون پر حکم آیا کہ آج دشمن کے جہازوں پر فائر نہیں کیا جائے گا۔ یونٹ کے سپاہی اور افسر اس امر سے بے خبر تھے کہ کمانڈر نیازی اور بھارتی افواج میں کیا کھسر پھسر ہو رہی ہے۔ جنگیں عموماً آبادیوں سے دور لڑی جاتی ہیں مگر ڈھاکا ائر پورٹ کے چاروں طرف آبادی ایک طرف ہوٹل کانٹی نینٹل ہے۔ ہوٹل پر بم باری کی اجازت نہیں تھی کیوں کہ اس میں سینکڑوں غیر ملکی مقیم تھے۔ کئی درجن غیر ملکی صحافی ہوٹل کی چھت پر بیٹھ کر اصلی جنگ کے مناظر دیکھا کرتے تھے۔ وہ یہ دیکھ کر حیران ہو جاتے کہ جدید ترین جنگی جہازوں کا مقابلہ پرانے زمانے کی توپوں سے کیا جا رہا ہے۔ بھارت کے پاس MIG-21 اور SU-7 جیسے جنگی جہاز تھے جو ہر وقت ڈھاکا کی فضائوں میں منڈلاتے رہتے تھے۔ کبھی ایسا نہ ہوا کہ بھارتی طیارے آئے ہوں اور پاکستانی رجمنٹ نے ان کے لیے آگ کا ناشتا نہ بھیجا ہو۔ ڈھاکا کی فضا بم باری کے دھماکوں اور چیخ و پکار کی آواز سے گونجتی زمین آگ اور خون سے گلنار ہو جاتی۔ حالات حوصلہ شکن تھے مگر پاکستانی طیارہ شکن ہر وقت ملکی دفاع کے لیے مستعد رہتے۔ 16 دسمبر کی شام چار بھارتی بم بار طیارے ڈھاکا کی فضائوں میں نمودار ہوئے۔ بمبار طیارہ فائٹر طیارے سے سائز میں بہت بڑا ہوتا ہے اور زیادہ تیز نہیں ہوتا۔ اس میں فائٹر طیارے کی نسبت بمباری کرنے کے لیے زیادہ بم ہوتے ہیں۔ جیسے یہی یہ طیارے طیارہ شکن توپوں کی زد میں آئے ان پر چاروں طرف سے فائرنگ شروع ہو گئی۔ ایک طیارہ زیر تعمیر رن وے (کرمی ٹولہ) پر گرایا گیا دوسرا مین ائر پورٹ کے مغربی سرے پر۔ اس دن طیارہ شکن سپاہیوں کا خوشی سے برا حال تھا۔ ائر پورٹ کے فضائیں نعرۂ تکبیر سے گونج رہی تھیں۔
16 دسمبر کی سہ پہر بھارتی جرنیل ہیلی کاپٹروں سے ائر پورٹ پر اترنے لگے۔ پاکستانی سپاہیوں کو بیرک میں جانے کا حکم دیا گیا۔ بھارتی جرنیل جگجیت سنگھ اروڑہ اور جنرل نیازی کورس میٹ تھے۔ ان میں آپس میں نہ جانے کیا طے ہوا کہ جنرل نیازی نے اپنا پستول اروڑہ کے حوالے کیا اور سرنڈر کے کاغذات پر دستخط کیے اور کیمرے کی آنکھوں نے ذلت اور رسوائی کے مناظر محفوظ کر لیے۔ جنرل نیازی کا پستول بھارتی ملٹری اکیڈمی میں رکھا ہوا ہے جہاں پر یہ بھارتی کیڈٹوں کا حوصلہ بڑھاتا ہے۔ بھارت کا مشرقی پاکستانی فتح کرنا پاکستان کے سیاست دانوں اور جنرل کی حماقت حرص اور بے تدبیری کا زندہ ثبوت ہے حقیقت یہ ہے کہ بنگلہ دیش کے مجیب الرحمن اور مغربی پاکستان کے بھٹو پورا الیکشن اکیلے ہضم کرنا چاہتے تھے۔ دونوں میں اتنی کشادگی نہ تھی کہ وہ ایک دوسرے کو برداشت کر سکیں۔ دونوں نے اپنے اقتدار کے لیے رسہ کشی شروع کی۔ چھینا جھپٹی میں یہ ملک ہی ٹوٹ گیا جس ملک کو بڑے ارمانوں اور جتن سے لاکھوں غریب مسلمانوں کی جان مال عزت آبرو کی قربانیاں دے کر بنایا گیا تھا۔ وہ سیاست دانوں کی ہوس کا شکار ہو گیا۔ جب بنگالیوں کو یقین ہو گیا کہ انہیں جان بوجھ کر اقتدار سے محروم کیا جا رہا ہے تو بنگالی قوم پرستوں نے اپنی روح شیطان یعنی بھارت کے حوالے کر دی۔ بھارت سے مدد طلب کی بھارت ہمیشہ موقع کی تلاش میں رہتا ہے۔ اگر بنگال میں اقتدار کی کشمکش نہ ہوتی تو بغاوت کی آگ بھی نہ بھڑکتی اور بھارت کی مجال نہ ہوتی کہ وہ حملہ کرتا اس شکست کی وجہ سیاسی اور فوجی دونوں غلطیاں تھیں۔ یحییٰ خان آرمی چیف انتہائی رند بلا نوش تھے ان میں نہ عسکری معاملات کی سمجھ بوجھ تھی اور نہ کردار کی پختگی یہی حال جنرل نیازی کا تھا۔
کہا یہ جاتا ہے کہ مشرقی پاکستان کا دفاع مغربی پاکستان کے دفاع میں مضمر ہے۔ یہ مفروضہ غلط تھا۔ مشرقی پاکستان میں بھی اتنی ہی فوج کی ضرورت تھی جتنی مغربی پاکستان میں تھا۔ اس فوج کی بحری لڑائی کا ماہر ہونا ضروری تھا۔ مگر کسی نے یہ نہ سوچا جب برا وقت آیا مغربی پاکستان سے صرف انفنٹری فوج ہوائی جہازوں میں ڈھو ڈھو کر بھیج دی گئی۔ اکیلی انفنٹری بغیر آرٹلری اور آرمر (انجینئر) کے کچھ نہیں ہوتی۔ افراتفری میں کوئی تدبیر کارگر نہیں ہوتی۔ ایک غلط مفروضہ یہ بھی تھا کہ مشرقی پاکستان کے چپے چپے کا دفاع کیا جائے زمینی حالات کا تقاضا تھا کہ پاکستانی فوجیں پیچھے ہٹتی چلی جائیں اور آخر میں ڈھاکا کے اطراف میں اکٹھی ہو جائیں اس طرح بھارتی فوج کا بڑا نقصان ہوتا اور اسے ڈھاکا پہنچنے میں بہت دیر لگتی۔ جب کہ بین الاقوامی صورت حال لڑائی کو زیادہ دیر نہ چلنے دیتی۔ پاکستان کو توڑنے میں سیاست دانوں کا ہاتھ زیادہ ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل عبدالمجید ملک نے پچاس کی دہائی میں تین سال بنگال میں گزارے۔ 1971ء کی جنگ میں وہ ڈی جی ملٹری آپریشن تھے اس دوران
بھی وقتاً فوقتاً وہ مشرقی پاکستان آتے جاتے رہتے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ بنگالی شہری جہاں ایک طرف حساس سیاسی سوچ رکھتے ہیں وہیں دوسری جانب ان میں بھاری اکثریت اسلام کی بھی شیدائی ہے۔ اس وقت بنگلادیش میں جو سیاسی انتشار ہے اس کا تعلق 1971ء کی جنگ سے نہیں ہے۔ بلکہ سیاسی جنگ کے لیے شاید اس کی ضرورت تھی۔ انڈیا کو جہاں بھی جب بھی پاکستان کے خلاف کارروائی کا موقع ملتا ہے اسے ضائع نہیں کرتا۔ بنگلادیش کے اسلام پسند حلقوں میں اب بھی پاکستان اور اسلام سے محبت ہے اس محبت کی سزا وہاں کی حکومت انہیں دیتی رہتی ہے۔ اس سال محصورین کے کیمپوں سے 230 لڑکیوں کو اغوا کیا گیا جن کا ابھی تک کوئی سراغ نہیں ملا۔ بنگلادیش کے مختلف شہروں میں موجود خواتین کو خرید کر بھارت میں بیچنے کا رجحان بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ محصورین کے کیمپوں کی لڑکیاں اور خواتین دلال مافیا کا آسان ہدف ہیں کیونکہ ان کے پاس قومی شناخت نہیں۔ دلال ان کو بھارت پہنچادیتے ہیں تو ان کا واپس بنگلادیش لانا ناممکن ہوجاتا ہے۔ کیونکہ وہ خواتین بنگالی زبان نہیں جانتی اس لیے بھارتی سیکورٹی حکام بنگلادیش ہائی کمشنر سے انٹرویو کے لیے کہتے ہیں اور بنگلا زبان نہ جانے کی بنا پر وہ گھر والوں میں واپس نہیں آتیں۔ آٹھ بائی آٹھ کے خیمہ نما گھروں میں تین لاکھ پناہ گزین ہیں جو اردو پاکستان اور اسلام سے محبت کی پاداش میں زندہ درگور ہیں۔ ان محب وطن اردو بولنے والوں کی کوئی شناخت نہیں وہ خود کو پاکستانی کہلوانا پسند کرتے ہیں لیکن پاکستانی حکومت ان کو اپنانے کے لیے تیار

نہیں۔ بنگلادیش محصورین کے کیپ میں بوڑھی خواتین مچھلی کے جال یا بان کے ننھے ڈھابے بنا کر اپنے آپ کو زندہ رہنے کے لیے کاروبار کررہی ہیں۔ اسکول کالج جانے والے بچے بچیاں زر دوزی یا کار چوبی کڑھائی کا کام کرتے ہیں ان کی کڑی محنت سے بنائی جانے والی ساڑھیوں اور پارچہ جات کو ڈھاکا کی مقامی اور بین الاقوامی مارکیٹوں میں اچھی قیمت مل جاتی ہے لیکن ان کو بہت کم معاوضہ دیا جاتا ہے۔ محصورین میں نوجوان اور بوڑھے زیادہ تر رکشا چلاتے ہیں کیونکہ اس پیشہ سے وابستہ ہونے کے لیے نہ شناختی کارڈ کی ضرورت ہوتی ہے نہ کسی ہنر کی، نہ تعلیم کی اور نہ کسی سرٹیفکیٹ

کی، بس جسم میں جان ہو اور کسٹمر کی گالیاں کھانے کا حوصلہ ہو۔
پچھلے کئی سال پہلے یوم سقوط ڈھاکا سے چند روز پہلے بنگلادیش نے عبدالقادر ملا کی لاش کا تحفہ دیا۔ 12 دسمبر کو حسینہ واجد کے حکم پر ان کو پاکستان کی حمایت جماعت اسلامی کے جنرل سیکرٹری ہونے کی بناء پر پھانسی کی سزا دی گئی۔ وہ ایک مستند مصنف تھے جو اسلامی مسائل کی نشاندہی کرتے تھے۔ اپنی زندگی میں پانچ بار جیل گئے پھر پروفیسر غلام اعظم کو پاکستان کی حمایت پر تینتالیس سال بعد سزا سنائی گئی۔ 16 دسمبر 1971ء سے وابستہ یہ زخم ناسور بن چکا ہے مدبر پاکستانی کے لیے ایسا اندوہناک حادثہ ہے جو کوشش کے باوجود بھلائے نہیں بھولتا۔ کاش اس کا مداوا ہوسکے۔ کاش ہماری حکومتیں کچھ کرسکیں۔