سقوط ڈھاکا ذمے دار بے نقاب لیکن نامعلوم ہیں

668

نواب زادہ افتخار احمد خان
رکن قومی اسمبلی پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین
س… سقوط ڈھاکا کے بارے میں آپ ہمارے قارئین کو بتائیے کہ اس وقت کیا حالات تھے اور آپ کے جذبات کیا تھے۔
ج…قوم آج سقوط ڈھاکا کے انچاس سال گزرنے پر دکھی دل اور اشکبار آنکھوں کے ساتھ وطن عزیز کے دولخت ہونے کے سانحہ پر افسردہ اور آزردہ ہے۔چھ سال قبل 16 دسمبر کو پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کی سفاکیت نے سقوط مشرقی پاکستان کے درد کو مزید گہرا کر دیا تھا۔ آج اس درد کی ٹیسیں بھی شدت کے ساتھ محسوس ہورہی ہیں۔ تاہم اس سانحہ کے بعد اس کے ذمہ دار کیفر کردار تک پہنچ چکے ہیں آج سے انچاس سال قبل 16 دسمبر کے بدنصیب دن مشرقی پاکستان میں اس ملک خداداد کو توڑنے کی بھارتی سازشیں کامیاب ہوئیں اور جنرل اے اے کے نیازی نے بھارتی جنرل اروڑہ کے سامنے سرنڈر کرکے قومی تاریخ میں سیاہ ترین باب کا اضافہ کیا۔ 16 دسمبر 1971ء کا سانحہ سقوط ڈھاکا بلاشبہ ہماری تاریخ کے بدترین اور سیاہ ترین اوراق میں شامل ہے جو ملک کی سالمیت کے تحفظ کے حوالے سے ہماری حکومتی‘ سیاسی اور عسکری قیادتوں کے لیے نشانِ عبرت بھی بنا رہے گااور آئندہ ایسی کسی سفاک غلطی کا اعادہ نہ ہونے دینے کی تلقین بھی کرتا رہے گا۔ آج اس ہولناک غلطی کا اعادہ نہ ہونے دینے کے عزم کی اس لیے بھی ضرورت ہے کہ ہمارے مکار دشمن بھارت نے آرٹیکل 370 اور 35اے کو ختم کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی۔ کشمیر کی اس تقسیم کے ساتھ ہی آزاد کشمیر پر بھی اپنا حق جتانا شروع کر دیا اس کی لیڈر شپ کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ پاکستان نے آزاد کشمیر پر اپنا قبضہ جما رکھا ہے جو ہم نے اس سے واگزار کراناہے۔ جنرل نیازی کی جانب سے بھارتی جرنیل اروڑہ سنگھ کے آگے پستول پھینک کر اور پیٹی اتار کر سرنڈر کرنے اور 90 ہزار سے زائد جنگی قیدیوں کی شکل میں ازلی مکار دشمن بھارت کے حوالے کرنے کے49 سال قبل کے واقعات آنکھوں کے سامنے آتے ہیں تو سوائے شرمندگی‘ پشیمانی اور ندامت کے کوئی احساس اجاگر نہیں ہوتا۔ یہ وہ داغ ندامت ہے جو ہماری پیشانیوں پر انمٹ بن کر قومی غیرت و حمیت کو ہمہ وقت جھنجھوڑتا رہے گا۔
پاکستان کے خلاف بھارتی سازشوں کی صورت حال میں تو ہمیں سانحہ سقوط ڈھاکا سے سبق سیکھتے ہوئے باقی ماندہ پاکستان کی سلامتی و تحفظ کے لیے زیادہ فکر مند ہونا چاہئیے۔
محمد اعجاز الحق
صدر پاکستان مسلم لیگ(ض)
سابق وفاقی وزیر حکومت پاکستان
س… سقوط ڈھاکا کے بارے میں آپ ہمارے قارئین کو بتائیے کہ اس وقت کیا حالات تھے اور آپ کے جذبات کیا تھے
ج…16 دسمبر 1971ء کا بدنصیب دن ہماری سیاسی تاریخ کا حصہ ہے آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے نتائج تسلیم نہ کیے جانے پر یہ دن دیکھنا پڑا‘ پیپلزپارٹی کے پاس اکثریت نہیں تھی اکثریت حاصل کرنیوالی عوامی لیگ کو اقتدار منتقل کرنے سے دانستہ گریز کیا گیا اور شیخ مجیب الرحمان کو جیل میں ڈال کر مشرقی پاکستان کے عوام میں منافرت کی فضا پیدا کی ذوالفقار علی بھٹو اس وقت دانش مندی سے کام لیتے اور عوامی لیگ کے مینڈیٹ کو تسلیم کرتے تو آج حالات مختلف ہوتے مگر اس وقت کی قیادت کی بے تدبیری اور کج فہم سیاسی قیادتوں کی ہٹ دھرمی نے مشرقی پاکستان کے حالات کو منافرت کی آگ میں اس نہج تک پہنچا دیا کہ شروع دن سے ہی ملک کی سالمیت کے درپے ہمارے دشمن بھارت کو پاکستان کی سالمیت پر کاری ضرب لگانے کا نادر موقع مل گیا جس نے 3 دسمبر 1971ء کو ہم پر جنگ مسلط کی اور 16 دسمبر کو سقوط ڈھاکا والی قیامت برپا کر دی جس کے لیے اس نے اپنی پروردہ مکتی باہنی کو افواجِ پاکستان کے مدمقابل لا کر جہاں مسلمانوں کے خون کی ارزانی کا اہتمام کیا وہیں اس ارضِ پاک کو دولخت کرنے کے حاصل ہونیوالے موقع کو بھی ہاتھ سے نہ جانے دیا۔اس طرح جو وطنِ عزیز اکھنڈ بھارت کے پیروکاروں کے عزائم کو پاش پاش کرتے ہوئے اسکے وجود کو کاٹ کر بانی پاکستان قائداعظم کی زیر قیادت جاری پْرعزم تحریکِ کے نتیجہ میں اس خطہ ارضی پر ابھر کر سامنے آیا تھا اور جس کی بنیاد برصغیر کے لاکھوں مسلمانوں کے خون اور عفت مآب بہنوں، بیٹیوں، مائوں کی عصمتوں کی قربانیوں سے سینچی گئی تھی‘ اسکی تعبیر ہماری فوجی اور سیاسی قیادتوں کی عاقبت نااندیشی نے دھندلا دی ذوالفقار علی بھٹو نے مغربی پاکستان کی شکل میں موجود باقی ماندہ پاکستان کی سالمیت کے خلاف بھارتی عزائم کو بھانپ کر ملک کو ایٹمی قوت بنانے کا بیڑہ اٹھایا اور کشمیر کے حصول کے لیے بھارت کے ساتھ ایک ہزار سال تک جنگ لڑنے کا اعلان بھی کیا تاہم دشمن کو ملک توڑنے کا موقع فراہم کرنیوالے ان کے کردار کو بھی تاریخ کے اوراق سے مٹایا نہیں جا سکتا چنانچہ یہ حالات آج ہماری حکومتی، سیاسی اور عسکری قیادتوں سے ماضی کی غلطیوں کا کفارہ ادا کرنے اور آئندہ ایسی کوئی غلطی نہ ہونے دینے کے متقاضی ہیں۔
قوسین فیصل مفتی
ایڈووکیٹ سپریم کورٹ
آج سانحہ مشرقی پاکستان کی یاد تازہ کرنے کے ساتھ ساتھ قوم آرمی پبلک اسکول پشاور میں دہشت گردوں کی درندگی سے شہید ہونیوالے ڈیڑھ سو بچوں اور اساتذہ کوبھی خراج عقیدت پیش کررہی ہے ان کی پہلی برسی کے موقع پر وفاق کے 122 تعلیمی ادارے اے پی ایس کے شہداء کے نام سے منسوب کئے گئے جبکہ ملک میں بدستور جاری دہشت گردی نے سانحہ اے پی ایس کو قوم کے دلوں سے کبھی محو نہیں ہونے دیا اس سانحہ کے بعد بلاشبہ دہشت گردی کے پس پردہ محرکات کا مکمل تدارک آج ہمارے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے کیونکہ بھارت اور افغانستان کی شہہ پر دہشت گرد آج بھی اس ارض وطن پر اپنے متعینہ اہداف تک پہنچ کر دہشت گردی کی گھنائونی کارروائیاں کرتے نظر آتے ہیں۔ پاک افواج اپنی جان پر کھیل کر دہشت گردوں کا پاتال تک تعاقب کرتی نظر آتی ہیں۔
آج قوم بیک وقت سقوط مشرقی پاکستان اور سانحہ اے پی ایس پشاور پر غمزدہ اور دل گرفتہ ہے۔ اس موقع پر سیاسی اور عسکری قیادت کو سانحہ مشرقی پاکستان سے سبق حاصل کرتے ہوئے دشمن کو دفاع وطن کے لیے فی الواقع قوم کے سیسہ پلائی دیوار بننے کا ٹھوس پیغام دے رہی ہے۔ جس میں اپوزیشن کو بھی سیاسی اختلافات سے بالاتر ہو کر حکومت اور پاک فوج کے شانہ بشانہ ہونا ہو گا۔دہشت گردوں کی اب تک کی بہیمانہ کارروائیوں میں شہید ہونیوالوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کا یہی بہترین طریقہ ہے کہ ملک کو دہشت گردوں کے ناپاک وجود سے مکمل طور پر پاک کر دیا جائے۔
ارشاد حسن خان
سابق چیف جسٹس آف پاکستان
س… سقوط ڈھاکا کے بارے میں آپ ہمارے قارئین کو بتائیے کہ اس وقت کیا حالات تھے اور آپ کے جذبات کیا تھے
ج…اُن دنوں جب پاکستان ٹوٹا میں وکالت کرتا تھا۔ میرے مشرقی پاکستان ہائیکورٹ کے مسٹر چیف جسٹس محبوب مرشد سے بہت اچھے مراسم تھے۔ ساٹھ کی دہائی کے شروع میں پاکستان میں لاہور ہائیکورٹ کی سو سالہ تقریبات کا جشن منایا گیا۔ اس جشن میں پوری دنیاسے قانون دانوں کو پاکستان آنے کی دعوت دی گئی تھی۔ محبوب مرشد چیف جسٹس مشرقی پاکستان کے طور پر اس تقریب میں مدعو تھے۔ مجھے اس تقریب کا ا ہتمام کرنے والی کمیٹی نے محبوب مرشد کے ساتھ میزبان کے طور پرمتعین کیا۔یہاں سے میرے اورمحبوب مر شد کے ساتھ تعلقات کا سلسلہ شروع ہو۔ محبوب مرشد سے کے توسط سے ہی میری مجید نظامی صاحب سے پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ وہ محبوب مرشد کے بہترین دوستوں میں شامل تھے محبوب مرشد مغربی پاکستان آتے تو مجیدنظامی مرحوم ان کی دعوت کرتے اور ان دو کے علاوہ تیسرا میں اس دعوت میں شریک ہوتا تھا۔ محبوب مرشد ایک بڑے قانون دان اور انتہائی محب وطن پاکستانی تھے اور سادہ انسان تھے۔ایک بار وہ لاہور آئے تو میرے گھر تشریف لے آئے،مجھے انہوں نے آگاہ نہیں کیا تھا مجھے اطلاع ہوتی تو انکے شایان شان چائے وغیرہ کا بندوبست کرنے کی کوشش کرتا۔وہ آئے تو میں کھانا کھا رہا تھا۔انہوں نے کسی بھی تکلف سے منع کرتے ہوئے میرے ساتھ کھانا کھایا۔ وہ میرے ساتھ اپنے بچوں کی طرح محبت کرتے اور بڑے بڑے لوگوں کے مقابلے میں میری بات اور رائے کو ترجیح دیتے تھے تفصیلی تذکرہ میں نے اپنی کتاب میں کیاہے مگر جب شیخ مجیب الرحمن کا وہاں طوطی بولنے لگا تو وہ بھی اسی رومیں بہتے ہوئے مجیب الرحمن کے حامی ہو گئے اس کے بعد میں نے ان کے ساتھ پاکستان کی محبت میںقائم تمام تعلق ختم کردیا۔مجھے یہ بھی معلوم ہوا اس کے بعد مجید نظامی نے بھی محبوب مرشد کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھا تھا۔ محبوب مرشد کی طرف سے مجھے ایک دو بار خط بھی ملے لیکن میں نے خط کا جواب دینا بھی مناسب نہ سمجھا۔ میرے جیسے لوگوں کی پاکستان سے بے پایاں محبت کا سبب شاید پاکستان بنتے دیکھنا،بھارت سے آتے ہوئے مصائب کا سامنا کرنا ہوسکتا ہے۔اور پھر تحریک پاکستان کی بھی آنکھیں گواہ ہیں جس کا حصہ بننے کا فخر ہے لہٰذا پاکستان ٹوٹنے پر دل گرفتہ دل فگارہونا فطری امر ہے۔سقوط مشرقی پاکستان کی یاد آج نصف صدی کے قریب عرصہ گزرنے کے باوجود انگاروں پر لٹا دیتی ہے۔ کہا جاتا ہے وقت زخموںکا مرہم ہوتا ہے مگر سقوط مشرقی پاکستان اور پاکستان کے دو لخت ہونے کا زخم بھرنے کا نام تک نہیں لیتا۔یہ صدمہ بھولے نہیں بھولتا۔ اس زخم اور درد کی ٹیسیں آج بھی اس سانحہ کے رونما ہونے کے پہلے روز کی طرح اٹھتی ہیں۔کاش یہ المیہ رونما نہ ہوتا اور قائد و اقبال کا دیا ہوا پاکستان تا قیامت سالم و ثابت موجود رہتا۔اب بہت کچھ کاش میں بدل گیا ہے۔ شیخ مجیب الرحمن کے چھ نکات جو اس وقت مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے کچھ لوگوں کو پھنکارتا ہوا ناگ نظر آتے تھے۔ شاید بصیرت کی کمی تھی دیوار کے دوسری طرف دیکھنے کی عدم صلاحیت تھی یا مستقبل بینی کا فقدان تھا جو بھی تھا مجیب الرحمن کے چھ نکات کی مخالفت کرنے والوں نے سقوط کے ساتھ ہی سکوت اختیار کر لیا۔جن کی نیتیں درست تھیں وہ حب الوطنی کے جذبے کے تحت ہی چھ نکات کی مخالفت کر رہے تھے تاہم چھ نکات کی حمایت اور مخالفت کرنے والے سب کے سب نیک نیت اور محب وطن نہیں تھے۔ نیک نیتی پر مبنی رائے رکھنے والے المیہ عظیم کے بعد ہاتھوں کو دانتوں سے کاٹتے نظر آئے۔ایک تو ملک ہاتھ سے گیا، دوسرا پاکستان کو بد ترین ہزیمت سے دو چار ہونا پڑا۔ 93ہزار جنگی قیدی دشمن کی قید میں چلے گئے۔ اس سانحہ کی کیا تحقیقات ہوئیں؟۔حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ کہاں ہے؟؟۔ اس میں کیا ہے؟؟؟۔ رپورٹ ہی سرکاری طور پر سامنے نہ آسکی تو اس کی سفارشات کیا تھیں ان کا ہی نہیں پتہ تو عمل تو بعد کی بات ہے۔ قومیں اپنے اعمال کا حساب کرتی ہیں۔خود احتسابی کرتی ہیں مگر اس حوالے سے ہم تاریخ کا ایک بے وقعت پرزہ ثابت ہوئے ہیں مگر وقت گزرا نہیںٹائم ابارڈ نہیں ہوا۔ آج بھی ہمیں اس معاملے کو لے کر حمو دالرحمن رپورٹ سے گرد جھاڑ کر خود احتسابی پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔یہ بھی ایک بڑا سوال ہے کہ حمود الرحمن رپورٹ لیک ہو کر سامنے بھی آئی تو بھارت سے لیک ہوئی۔ یہ بھی ایک تحقیق طلب امر ہے۔ 16د سمبر 1971ء سے یہ سوال مجسم ملتجی ہے: پاکستان کیوں ٹوٹا؟ اس سوال کے کئی جوابات موجود ہیں۔ بدقسمتی سے ان میں سے کوئی جواب بھی معروضی یا Objective نہیں، بلکہ ہر جواب کی پشت پر کسی نہ کسی شخص، جماعت، طبقے یا ادارے کے مفادات موجود ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان ٹوٹنے کے باوجود بھی ہم پاکستان سے نہیں اپنے شخصی، جماعتی، طبقاتی یا اداراتی مفادات سے محبت کے اسیر ہیں۔ ہمیں پاکستان سے محبت ہوتی تو ہم یہ جاننے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا چکے ہوتے کہ برصغیر کی ملّتِ اسلامیہ کی آرزو، اقبال کے خواب اور قائداعظم کی تعبیر کو کس نے دولخت کیا؟ پاکستان کا حکمران طبقہ اس سلسلے میں اور کچھ نہیں کرسکتا تھا تو کم از کم حمودالرحمن کمیشن کی پوری رپورٹ ہی شائع کردیتا‘ حمودالرحمن کمیشن سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس حمودالرحمن کی سربراہی میں قائم کیا گیا۔ اس کے دیگر دو اراکین میں سپریم کورٹ کے جج جناب جسٹس ایس انوارالحق اور بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جناب جسٹس طفیل علی عبدالرحمن شامل تھے۔ ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل الطاف قادر کمیشن کے مشیر، اور سپریم کورٹ کے نائب رجسٹرار ایم اے لطیف کمیشن کے سیکرٹری تھے کمیشن نے سقوطِ ڈھاکا کے حوالے سے 213 گواہوں کے بیانات ریکارڈ کیے۔ کمیشن نے راولپنڈی میں یکم فروری 1972ء سے بیانات ریکارڈ کرنے کا سلسلہ شروع کیا اور 12جولائی 1972ء کو اپنی رپورٹ اْس وقت کے صدر پاکستان کے حوالے کی تھی۔مشرقی پاکستان کے باسیوں کے مغربی پاکستان کے حوالے سے بڑے تحفظات تھے۔ مشرقی پاکستان سے وکلاء آتے ان سے ملاقاتیں رہتی تھیں وہ مغربی پاکستان کی ترقی اور مشرقی پاکستان کی پسماندگی کے شاکی رہتے تھے۔مغربی پاکستان میں کچھ لیڈر شپ کی سوچ اور رویوں سے بھی وہاں کے شہریوں کو دوسرے درجے کے شہری ہونے کا احساس ہوتا تھا۔اس پر بنگالیوں کے گلے شکوے تحفظات اعتراضات سے ہوتے ہوئے نفرتوں کی طرف بڑھنے لگے اورنوبت چھ نکات سے ہوتی ہوئی سقوط مشرقی پاکستان تک جا پہنچی۔کاش ڈھیلی ڈھالی ہی سہی فیڈریشن تو برقرار رہتی۔ مکمل پاکستان تو موجود رہتا۔اس حوالے سے ہم نے بہت کچھ کھو دیا۔آدھا ملک گنوا دیا۔ اُس طرف کے مجیب الرحمن اور اس کے حامیوں نے اقتدار تو پالیا مگر انسانیت کھو دی۔ستم بالائے ستم جن لوگوں نے حب الوطنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کو ٹوٹنے سے بچانے کی کوشش کی ان کو پھانسیاں دی گئی ہیں
محمد اقبال ڈار
صدر پاکستان مسلم لیگ(ج)
س… سقوط ڈھاکا کے بارے میں آپ ہمارے قارئین کو بتائیے کہ اس وقت کیا حالات تھے اور آپ کے جذبات کیا تھے
ج… کیا کہا جائے‘ اور کیا نہ کہا جائے‘ افسوس کہ آج تک سانحہ ڈھاکا کے مجرم بے نقاب نہیں ہو سکے ہیں‘ 1971ء میں پاکستان کو دولخت کرنے میں چار کردار ناقابل فراموش ہیں۔ جنرل یحییٰ، جنرل نیازی، شیخ مجیب الرحمن اور ذوالفقار علی کا نعرہ اِدھر ہم اُدھر تم۔ انچاس سال قبل قوم کو ان کرداروں کے باعث 16 دسمبر کے دن المناک سانحہ کا سامنا کرنا پڑا۔ 14 دسمبر حکومت مشرقی پاکستان کا آخری دن تھا۔ جنرل مانک شا جنرل نیازی کو چت کرنے میں کامیاب ہوا۔ اپنی مرضی کی دستاویز پر جنرل نیازی سے دستخط کرائے اور پھر پاکستان کے 90 ہزار شہری اور فوجی بھارت کی قید میں چلے گئے۔ بظاہر سیزفائر کا معاہدہ بنگلہ دیش کا جنم دن تھا۔ بنگلہ دیش کی ولادت میں بھارت کی پروردہ مکتی باہنی نے بھرپور کردار ادا کیا۔ مودی نے اعتراف کیا کہ وہ اپنی جوانی میں بنگلہ دیش کے جنم میں شریک رہا۔ رمنا ریس گرائونڈ میں سرعام جنرل نیازی سے ہتھیار ڈلوانے کی تقریب ہوئی تھی اور یوں سقوط ڈھاکا پر آخری مہر ثبت کر دی۔ انچاس سال بعد بھی ہمارے سیاستدانوں میں یکجہتی پیدا نہ ہو سکی۔ وزیراعظم اور صدر رہنے والے کیسے دربدر ہوئے، اتنی بلندی اور اتنی پستی دیکھ کر عقل حیران رہ جاتی ہے۔ سقوط ڈھاکا 20 ویں صدی میں مسلمانوں پر ٹوٹنے والی سب سے بڑی قیامت تھی۔ لیکن ہم کیا کر رہے ہیں۔ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچ رہے ہیں۔قومی وحدت کو پھر بحال کرنا ہو گا۔ قرضے کم، پیداواری لاگت میںاضافہ، گاڑیوں کی فروخت 60 فیصد متاثر، بہتر معیشت کے لیے میک ان پاکستان کی سوچ اپنانی ہو گی۔ دنیا کے 30 آلودہ ترین شہروں میں کراچی اور راولپنڈی شامل ہیں۔ معاشی بدحالی و افراط زر کی شرح 9 سالوں کی بلند ترین ہو گئی۔ چیک اینڈ بیلنس کا نظام کیوں نہ قائم ہو سکا؟ پاکستان کے بڑے شہر فضائی آلودگی کا شکار ہونے کے باعث صوتی آلودگی کا بھی شکار ہو چکے ہیں۔ بے ہنگم ٹریفک صرف چالانوں پر زور پریشر ہارنز، جنریٹرز، لائوڈ سپیکرز کے بے جا استعمال، آتش بازی، ہوائی فائرنگ، ڈھول ڈھماکے، کون روکے گا ملک کے ہر شہر میں ہر جگہ شور دھوئیں اور آلودگی نے شہریوں کا جینا حرام کر رکھا ہے کہاں ہے گڈ گورننس؟ حکومت کہاں ہے؟ اشیائے ضرورت عوام کی پہنچ سے دور ہیں سڑکوں پر ٹریفک وارڈنوں اور تھانوں میں تھانیداروں کا راج ہے مولانا کی تحریک پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچ گئی ہے۔ 2020ء ایکسپورٹ ایمرجنسی سال ہے۔ شرح سود کو فوری سنگل ڈیجٹ میں لایا جائے۔ ایک تاجر کوحکومت کے 27 محکموںکا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مہنگی بجلی بڑا ناسور ہے ترقیاتی اخراجات کا نصف پہلے 3 ماہ میں صوبوںکی جانب سے وفاق کو واپس کیا جانا صوبائی حکومت کی کارکردگی اور اہلیت پر سوالیہ نشان ہے۔
نسیم خالد
16 دسمبر 1971ء کو پاکستان کو دولخت کر دیا گیا۔ اس دن پاکستانی قوم کو ایسا زخم لگا جو شائد صدیوں تک مُندمِل نہ ہو سکے۔ اپنوں کی نالائقیوں، ہوسِ اقتدار اور مشرقی حصے کو نظرانداز کرنے کی پالیسی کے ساتھ ساتھ ازلی دشمن بھارت نے اس سانحے میں جو کردار ادا کیا وہ اظہر من الشمس ہے۔تحریک پاکستان کے دوران ہندوئوں اور انگریزوں کا گٹھ جور اپنے عروج پر رہا۔