عمران خان کو بھی مکالمہ یاد آگیا

834

 

 

معاملات نے توقع کے برعکس جلد پلٹا کھالیا ہے۔ ابھی کچھ ہی عرصہ قبل تو اسلام آباد میں عمران خان نے کورونا کے بغیر لاک ڈائون تک نوبت پہنچادی تھی۔ 126 دن تک دھرنا دیا تھا ان کا سارا زور اس بات پر لگا کہ پنجاب سے شوباز شریف اور مرکز سے نواز شریف استعفا دیں۔ وہ انہیں گھر بھیجنا چاہتے تھے۔ چند ایک سنجیدہ سیاستدانوں نے انہیں توجہ دلائی تھی۔ ان ہی صفحات میں ہم نے بھی ان کو توجہ دلائی تھی کہ آپ کے پاس تیس کے لگ بھگ ارکان قومی اسمبلی ہیں آپ سڑکوں پر معاملات طے کرنے کی روایت نہ ڈالیں آج آپ کے پاس جو قوت ہے وہ آپ سڑکوں پر لے آئے ہیں لیکن ان میں سے کوئی پی ٹی آئی کا حقیقی سیاسی کارکن نہیں تھا اکثریت مختلف پارٹیوں سے ٹوٹ کر آنے والوں کی تھی یا مخلوط جلسوں کے شوقین نوجوانوں کی۔ عمران خان 2018ء میں وزیراعظم بنا دیے گئے لیکن انہیں بھی اندازہ نہیں ہوگا کہ صرف سوا دو سال میں وہ وہی ساری باتیں دہرا رہے ہوں گے جو وزیراعظم نواز شریف کہتے تھے۔ نواز شریف کہتے تھے پارلیمنٹ میں آئیں وہاں معاملات طے ہونے چاہئیں۔ عجیب صورت حال ہے، جو مسلم لیگی کہتے تھے آج کل وہ بات پی ٹی آئی والے کہہ رہے ہیں۔ اور جو بات عمران خان کہتے آج کل مسلم لیگی کہہ رہے ہیں۔ اب ڈی جے بٹ کو لے لیں اسے پی ڈی ایم کے جلسے سے کچھ دن قبل اس جرم میں گرفتار کرلیا گیا ہے کہ اس کے پاس سے غیر قانونی اسلحہ برآمد ہوا ہے۔ نواز شریف دور میں بھی ڈی جے بٹ گرفتار ہوئے تھے اور عمران خان نے اپنے ٹویٹ میں کہا تھا کہ کس قانون کے تحت پولیس ہمارے پرامن کارکنوں کو گرفتار کررہی ہے اور ڈی جے بٹ کو صرف اس لیے گرفتار کیا گیا ہے کہ وہ ہمارے لیے موسیقی اور لائٹس کا انتظام کررہا تھا۔ یہ وہی بٹ صاحب ہیں ناں جن کی گرفتاری پر خان صاحب بہت سیخ پا تھے۔ اب کیا ہوا؟ جب عمران خان کنٹینر پر تھے تو حکومت کا لب و لہجہ یہ تھا کہ جمہوریت تب چلے گی جب مکالمہ ہوگا۔ قومی ڈائیلاگ کی بہترین جگہ پارلیمنٹ ہے۔ وہاں ہر سوال کا جواب ملے گا۔
اس وقت اور آج میں صرف نام کا فرق ہے اس بیان میں سال اور نام تبدیل کردیں نواز شریف اور اب عمران خان دونوں کا موقف اپنی اپنی حکومت میں ایک اور اپوزیشن میں ایک تھا۔ البتہ مسلم لیگ (ن) یا نواز شریف کا موقف قدرے مختلف ہے۔ وہ جو کہہ رہے ہیں کہ اب حکومت سے نہیں سیاست میں مداخلت کرنے والوں سے مذاکرات ہوں گے۔ ممکن ہے اس طرح وہ زیادہ اچھی سودے بازی کرلیں، لیکن ایک خیال یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کا موقف بھی دراصل وہی ہے جو عمران خان کا تھا۔ وہ بھی کنٹینر سے اُتر کر کسی خفیہ مقام پر گئے تھے پھر پتا چلا تھا کہ آرمی چیف سے مل کر آگئے۔ اب مسلم لیگ بھی کچھ اسی طرح کا معاملہ کررہی ہے۔ کہتے تو سب پارلیمنٹ ہیں لیکن معاملہ کہیں اور ہی طے کیے جاتے ہیں۔
جہاں تک عمران خان کا تعلق ہے تو ان کی باتیں بھی وہی ہیں جو عموماً حکمران کرتے رہتے ہیں۔ اب انہوں نے کہا ہے کہ عوام سمجھتے ہیں کہ بٹن دبانے سے تبدیلی آجائے گی۔ قوم ہر حکومت سے تبدیلی کی اُمید لگا لیتی ہے۔ ارے کیا کہہ دیا عمران خان نے! تبدیلی تبدیلی تبدیلی کی رٹ کے بعد انہوں نے یہ نعرہ بھی لگایا تھا کہ تبدیلی آ نہیں رہی ہے۔ تبدیلی آچکی ہے تو خان صاحب کہاں ہے تبدیلی؟ آپ تو الیکشن سے قبل ہی بٹن دبا چکے تھے اور جو انداز گفتگو تھا اس عتبار سے تو انہیں بٹن دبانے کی بھی ضرورت نہیں تھی کیوں کہ جس روز وزیراعظم بنوں گا نواز شریف اور زرداری کی لوٹی ہوئی دولت واپس لے آئوں گا۔ آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے قرضے ان کے منہ پر دے ماروں گا اور پاکستان کو بڑی معاشی طاقت بنادوں گا لیکن وہ دولت تو کجا نواز شریف کو اور اسحق ڈار کو نہیں لاسکے۔ الطاف حسین کو نہیں لا سکے، کہنے کو تو کچھ بھی کہا جاسکتا ہے۔ اب عمران خان بٹن تلاش کریں جس کو دبانے سے تبدیلی آتی ہے اور یہ بھی معلوم کریں کہ بٹن پر ہاتھ کس کا ہے۔ ان باتوں کا وزیراعظم اور ان کی ٹیم کو تھوڑا تھوڑا اندازہ تو ہو رہا ہے کہ بٹن کہیں اور ہے۔ جیسا کہ وزیراعظم کا لہجہ بدل رہا ہے۔ اپوزیشن مجھے جانتی نہیں، جیت تو میری ہوگی، اب کہا ہے کہ بٹن دباتے ہی تبدیلی نہیں آتی۔ گویا یہ مان گئے ہیں کہ تبدیلی تو نہیں آئی۔ لیکن وہ مکالمہ کیا اور کس سے کریں گے۔ معاملہ تو ہونا چاہیے لیکن نواز شریف، زرداری اور عمران خان کے درمیان نہیں، اس ملک کے اصل اسٹیک ہولڈرز عوام کو اس مکالمے کا حصہ بننا چاہیے اور اس کا آسان راستہ شفاف انتخابات ہیں۔ دو شفاف انتخابات ہونے دیے جائیں حقیقی قیادت اور تبدیلی خود آجائے گی۔
حکومت کے ایک اتحادی شیخ رشید نے تو تسلیم کرلیا کہ حکومت جارہی ہے۔ کیوں کہ انہوں نے بہت پرانا لطیفہ یا محاورہ دہرایا ہے کہ خواہ سارے چودھری اور پورا گائوں مرجائے تو چودھری نہیں بنے گا۔ سو انہوں نے فرمایا کہ سارے چودھری بھی مرجائیں تو بھی فضل الرحمن وزیراعظم نہیں بنیں گے۔ یہ بات تو مولانا فضل الرحمن کو بھی معلوم ہے اور شیخ رشید کو بھی کہ مولانا فضل الرحمن وزیراعظم نہیں بنیں گے۔ لیکن انہوں نے یہ تسلیم کرلیا کہ ایک ایک کرکے چودھری مرنے (حکومت سے جانے) والے ہیں۔ ویسے یہ کوئی بری بات نہیں کہ کوئی مولانا وزیراعظم بن جائے۔ فضل الرحمن نہ سہی کوئی اور مولوی بن سکتا ہے۔ آخر مولوی کیوں نہیں بن سکتا۔ بلکہ حقیقت تو یہی ہے کہ مولوی ہی کو اب حکمران بننا چاہیے، اس میں کوئی معذرت خواہانہ سوچ نہیں ہونی چاہیے کہ مولوی کیوں۔ بس وزیراعظم کے مکالمے کے نتیجے میں وہی قوتیں پھر لوٹ کر نہ آجائیں جو لوٹ مار کرتی رہی ہیں۔ اب وزیراعظم کو اپنی صفوں میں بھی مکالمہ کرنا ہوگا اور قومی سطح پر بھی کہ ملک کا مستقبل کس رُخ پر لے جانا ہے۔ اپوزیشن یعنی پی ڈی ایم اپنا ایجنڈا لے کر چل رہی ہے کہ حکومت گرانی ہے اور حکومت کا ایجنڈا اب صرف حکومت بچانا ہے۔ یہ دونوں ایجنڈے پاکستان کے نہیں ہیں عوام کے نہیں ہیں۔ خدارا اس سے نکلیں ملک کے مستقبل کو تو چھوڑیں حال کی فکر کریں حال بھی برا ہے۔ یہ جگتیں لگا لگا کر کب تک کام چلایا جائے گا۔