مولانا محمد اسحاق شاہد دہلویؒ

1165

قحط الرجال کے اِس دور میں اہل علم بالخصوص عالم ِ دین کا اُٹھ جانا علمی دُنیا و معاشرے کے لیے ایک ناقابل تلافی نقصان ہے جس کا ازالہ ناممکن نظر آتا ہے۔ علامہ محمد اسحاق شاہد دہلویؒ کی شخصیت ایسی ہی ایک نابغہ ٔ روزگار علمی شخصیت کی تھی جو 3 دسمبر 2020ء کو ہمیں داغ مفارقت دے گئی۔ اناللہ وانا الہ راجعون۔ علامہ اسحاق شاہد مرحوم دینی جامعہ ستاریہ گلشن اقبال کے شیخ الحدیث، جید عالم دین و خطیب اور جماعت غربا اہلحدیث کے مرکزی رہنما تھے۔ وہ نامور عالم دین مفسر قرآن مولانا عبدالستار دہلویؒ کے داماد اور موجودہ امیر جماعت غربا اہلحدیث پاکستان مولانا عبدالرحمن سلفی کے بہنوئی تھے۔ وہ جماعت کے ناظم تبلیغ، رئیس الناظمین، مبلغ و خطیب اور جامعہ کے استاد کی حیثیت سے نمایاں تھے ان کی نماز جنازہ جامعہ ستاریہ میں ان کے صاحبزادے حافظ صہیب شاہد نے پڑھائی جس میں اساتذہِ کرام، علما دین، عزیز واقارب و دینی رہنمائوں نے شرکت کی۔ نماز جنازہ سے قبل مختصر خطاب میں صہیب شاہد نے کہا کہ موت ایک حقیقت ہے اور ابدی زندگی کا آغاز ہے۔ ہمیں زندگی میں موت کی تیاری کرنی چاہیے۔ انہوں نے اپنے والد اسحاق شاہد مرحوم کے حوالے سے بتایا کہ وہ آخر وقت کلمہ شہادت کا ورد کرتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ مولانا اسحاق شاہد مرحوم کی ساری زندگی تبلیغ دین کے لیے وقف تھی۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم مدرسہ دارالسلام برنس روڈ پر اکابر اساتذہ مولانا عبدالستار دہلویؒ، مولانا عبدالجلیل خانؒ، مفتی عبدالقہار دہلویؒ، کرم الجلیلیؒ، مولانا عبدالغفار سلفیؒ اور مولانا عبدالرحمن سلفی سے حاصل کی۔ دوران ِ تعلیم وہ ایک ذہین، باصلاحیت اور دین کی تڑپ رکھنے والے نمایاں طالب علم رہے۔ ابتدائی دورِ تعلیم میں انہیں کافی مشکلات و غربت کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن آزمائشوں کے ادوار میں بھی ان کا تعلیم دین و جماعت سے لگائو کم نہ ہوا۔ انہوں نے اپنی اولاد کو بھی دینی تعلیم کے لیے وقف کردیا جو آج حافظ قرآن، خطیب و عالم دین کی حیثیت سے دین کی تبلیغ و ترویج میں نمایاں کردار ادا کررہے ہیں۔ مولانا اسحاق شاہد مرحوم نے جامعہ ستاریہ میں ایک استاد کی حیثیت سے کافی عرصہ دین کے علوم کی تفہیم کے لیے طلبہ کی ذہنی تربیت کی اور ان کی نشوونما کے لیے کافی خلوص و محنت سے انہیں تبلیغ و تعلیم دین کے لیے تیار کیا۔ ان کے تیار کردہ طلبہ آج پورے ملک میں مساجد و مدارس میں نمایاں کردار ادا کررہے ہیں اور ان کے لیے صدقہ جاریہ بن رہے ہیں۔ مولانا اسحاق شاہد دہلویؒ ایک درمند و دین کے پھیلائو و اشاعت اور اتحاد امت کے دائمی تھے۔ وہ اکثر تقاریر و گفتگو میں کہا کرتے کہ باہمی انتشار و افتراق نے ہمیشہ دین و اسلامی سلطنتوں کو نقصان پہنچایا ہے اور اسلامی سلطنتوں و معاشروں کا زوال دین سے دوری اور باہمی اختلاف و انتشار کی باعث ہوا جو آج تاریخ کا حصہ ہے۔ انہوں نے اپنے خطبات جمعہ میں اکثر عقیدۂ توحید، ختم نبوت اور سیرت نبوی و صحابہ کو موضوع بنایا اور عوام میں ان عقائد کو مضبوطی سے پکڑنے اور تنظیم سے منسلک رہنے کی تلقین کی اور دینی امور باہمی مشاورت و نظم جماعت کے تحت انجام دینے کی نصیحت کی وہ اکثر جماعتی زندگی کی اہمیت ضرورت پر زور دیتے اور کہتے تھے کہ ایک جماعت و نظم میں شامل ہو کر دین کا کام بہتر انداز میں ہوسکتا ہے، وہ آخر وقت تک تبلیغ دین، عقیدہ توحید و نظم جماعت کے جذبہ کو اپنے خطبات میں اُجاگر کرتے رہے۔ ان کی وفات بلاشبہ ناقابل تلافی نقصان ہے، امیر جماعت غربا اہلحدیث مولانا عبدالرحمن سلفی نے ان کی وفات پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ان کی وفات سے جماعت کا علمی نقصان ہوا ہے اور جو خلا پیدا ہوگیا ہے وہ پُر ہونا ممکن نہیں۔ جماعت ایک بلندپایہ خطیب و عالم دین سے محروم ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی دینی خدمات کو قبول فرمائے اور انہیں اپنے جوار رحمت میں جگہ دے (آمین)
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ