دھاندلی یا میں نہ مانوں کی رَٹ؟

301

گلگت بلتستان کے انتخابی نتائج حسب توقع اپوزیشن نے مسترد کر دیے ہیں۔ بلاول زرداری کا کہنا ہے کہ ’’میرا الیکشن چرایا گیا‘‘۔ مریم نواز کا کہنا ہے کہ گلگت بلتستان کے نتائج کا پہلے ہی اندازہ تھا میں انہیں ایکسپوز کرنے گئی تھی۔ گلگت بلتستان کے انتخابی نتائج کا استرداد اور دھاندلی کا روایتی منترا بلاول اور مریم کے سیاسی قد کو اونچا کرنے کے بجائے نقصان ہی پہنچا رہا ہے۔ گلگت بلتستان میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی مل کر انتخاب لڑ رہی ہوتیں اور دونوں کو مولانا فضل الرحمن کا دست شفقت حاصل ہوتا تو انتخابی نتائج مختلف ہو سکتے تھے مگر پی ڈی ایم نے اپنی اتحادی فیوض وبرکات سے گلگت کی شاخوں اور کارکنوں کو محروم رکھنے ہی میں عافیت جانی۔ اس طرح پیپلز پارٹی نے جس انہماک سے یہ الیکشن پی ٹی آئی کے خلاف لڑا اتنی ہی دلچسپی مسلم لیگ ن کے اپنے مدمقابل امیدواروں کو ہرانے میں دکھائی۔ پی ٹی آئی نے صرف مسلم لیگ کے ایلیکٹ ایبلز کو توڑا اور انتخابی نتائج نے اسے ’’گناہ بے لذت‘‘ ثابت کیا کیونکہ اس گروپ کے سب سے قدآور رکن اور سابق اسپیکر فدا محمد ناشاد ہارنے والوں میں شامل ہیں اور باقی امیدوار بھی اپنی نشستیں برقرار نہ رکھ سکے۔ ان کی جگہ پی ٹی آئی کے پرانے کارکنوں اور پیپلزپارٹی، ن لیگ اور آزاد امیدواروں نے جیت اپنے نام کی۔ گلگت بلتستان کے انتخابات میں جوڑ توڑ کا جو حق ماضی کے وفاقی وزرا قمرالزمان کائرہ اور چودھری برجیس طاہر نے استعمال کیا تھا اتنا ہی حق ان کے جانشین علی امین گنڈا پور نے بھی استعمال کیا۔ ماضی میں جو مشق مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کی طرف سے کی جاتی تھی پی ٹی آئی نے بہت بچ بچا کر وہی مشق دہرائی اس میں خفیہ ہاتھ کی کارستانی کیا ہے؟۔ حد تو یہ پیپلزپارٹی کے امیدوار بعض مقامات پر یہ تاثر دیتے رہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بلاول کی خاموش مفاہمت کے بعد گلگت بلتستان اور آزادکشمیر میں پیپلزپارٹی کو واک اوور دینے کا فیصلہ کیا جا چکا ہے۔ ظاہر ہے گلگت بلتستان کے ماحول میں اس تاثر کا نقصان نہیں بلکہ فائدہ ہونا تھا اس لیے قیادت کی طرف سے اس موقف کی خاموش حوصلہ افزائی کی گئی۔
اپوزیشن اور حکومت کے درمیان محاذ آرائی جس سطح پر پہنچ چکی ہے اس میں اپوزیشن کا اپنی فتح کے بغیر کسی قسم کے دوسرے انتخابی نتائج کرنا قطعی ناممکن ہے۔ یہ ’’انا ولا غیری‘‘ کا رویہ جمہوریت کے اصولوں سے قطعی متصادم ہے۔ یہ حقیقت میں ٹرمپ کا راستہ ہے جس کی کوئی منطق نہیں۔ گلگت بلتستان کے انتخابی نتائج رائے عامہ کے جائزوں کے عین مطابق برآمد ہوئے بلکہ وفاق کی حکمران جماعت کے طور پر پی ٹی آئی کی کارکردگی کسی طور غیر معمولی نہیں۔ مسلم لیگ ن نے اپنے قیام کے بعد گلگت بلتستان کے دوسرے الیکشن ہی میں حکومت بنائی تھی۔ پی ٹی آئی کا بھی مسلم لیگ ن کی طرح یہ گلگت بلتستان میں دوسرا لیکشن ہے۔ گلگت بلتستان میں مسلم لیگ ن کی شاخ اس وقت قائم ہوئی تھی جب پیپلزپارٹی کی حکومت نے 2009 میں گلگت بلتستان امپاور منٹ آرڈر منظور کرکے اس علاقے میں وزیر اعلیٰ کا عہدہ تخلیق دیا تھا اور اس علاقے میں مروجہ پارلیمانی انداز کے انتخابی عمل کا آغاز ہوا تھا۔ اس لیے پی ٹی آئی کے دوسرے الیکشن میں معمولی برتری پر اپوزیشن کا چیں بہ جبیں ہونا عجیب ہے۔
بلاول کا یہ انداز تخاطب قطعی جمہوری نہیں کہ میرا الیکشن چرایا گیا۔ بلاول کو کس جوتشی اور پنڈت نے یہ اطلاع دی تھی کہ یہ الیکشن ان کا ہے۔ اپنے ارد گرد کارکنوں کی دھمالیں دیکھ کر اور نعرے سن کر خود کو یک طرفہ طور پر فاتح سمجھ لینا بھی خاصا عجیب رویہ ہے۔ مریم نوازنے گلگت بلتستان کی انتخابی مہم کو نوازشریف کے بیانیے کی تشہیر اور اسٹیبلشمنٹ کو چڑانے کے لیے استعمال کیا۔ جو اپوزیشن جماعتیں گلگت میں متحد ہو کر الیکشن نہ لڑ سکیں اب متحد ہو کر دھاندلی کا منترا پڑھ رہے ہیں۔ یہ بے وقت کا مُکا ہے اور اسے کہاں مارا جائے وہ بخوبی جانتے ہیں۔ اتحاد ویگانت اور مولانا کی اطاعت کا جو مظاہرہ اب دھاندلی دھاندلی کے ذریعے کیا جا رہا ہے اگر الیکشن میں ہوتا تو پی ٹی آئی کے لیے نو سیٹیں جیتنا ممکن نہ ہوتا۔ اپوزیشن کے دونوں قائدین نے چائے کی پیالی پر اکٹھا ہونا تو پسند کیا مگر سیٹ ٹوسیٹ ایڈجسٹمنٹ کی راہ تلاش کرنے میں دلچسپی نہ لی۔ یہ وہی انداز ہے جو نوے کی دہائی میں پیپلزپارٹی نے مسلم لیگ ن کے لیے اپنایا تھا۔
پیپلزپارٹی خود کو عوام کی واحد نمائندہ جماعت سمجھتی تھی اور صرف اپنی ہی جیت کو
جیت مانتی تھی۔ اس کے خیال میں مسلم لیگ ن کنگز پارٹی تھی، مصنوعی جماعت تھی۔ جس کی حیثیت اور ہستی کی حقیقت پنجاب سے تعلق رکھنے والی اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی کے سوا کچھ اور نہیں۔ عوام صرف پیپلزپارٹی کے ساتھ ہیں اور عوام اسی پارٹی کا دوسرا نام ہے۔ اس مغالطے میں پیپلزپارٹی نے مسلم لیگ ن کو سچ مچ کا خطرہ اور ایک حقیقی چیلنج بنا کر دم لیا۔ یہاں تک کہ بے نظیر بھٹو شہید کو یہ حقیقت لندن جا کر عالم جلاوطنی میں میثاق جمہوریت کی صورت میں تسلیم کرنا پڑی۔ جس حقیقت کا اعتراف سیاسی جماعتیں اپنے وطن میں نہ کر سکیں اسے ماننے کے لیے سات سمندر پار جانا پڑا۔ میثاق جمہوریت دونوں جماعتوں کے لیے زہر قاتل ثابت ہو کیونکہ ایک دوسرے کی مدمقابل جماعتوں کا یوں باہم شیر وشکر ہونا سیاست میں خلا پیدا کرنے کا باعث بنا اور اس خلا کو پی ٹی آئی نے پُر کیا۔ اب مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی مل کر وہی غلطی دہرا رہی ہیں۔ وہ عمران خان کی سیاسی جدوجہد ان کی جماعت کی عوام کے ایک طبقے میں قبولیت کی حقیقت سے نظریں چرا رہی ہیں۔ ان کے خیال میں پی ٹی آئی کنگز پارٹی ہے۔ جس کی حقیقت اسٹیبشلمنٹ کی حمایت زیادہ کچھ اور نہیں۔ عوام مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے ساتھ ہیں۔ یہی جماعتیں عوام ہیں اور عوام انہی دوجماعتوں کا دوسرا نام ہے۔ جیت صرف وہی ہوسکتی جو ان جماعتوں کے حصے میں آئے اور اس کے سوا کوئی بھی جیت دھاندلی اور خفیہ ہاتھوں کی کارستانی ہوتی ہے۔ حقیقت کو تسلیم نہ کرنے کا یہ رویہ پی ٹی آئی کو حقیقی مدمقابل بنا کر دونوں جماعتوں کو ایک نئی مشکل کا شکار بنا سکتا ہے۔