یوٹرن، رائٹ ٹرن اور ٹامک ٹوئیاں

837

کہا جارہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے یوٹرن لے لیا ہے اور وہ فوج سے مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز نے دعویٰ کیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے رابطے کیے ہیں۔ فوج سے ضرور بات کریں گے لیکن پہلے حکومت کو گھر بھیجا جائے۔ مریم نواز ابھی نئی نئی سیاست میں آئی ہیں ان کے انٹرویو کے جو حصے رپورٹ ہوئے ہیں ان میں بہت سے تضادات ہیں لیکن ان سب باتوں پر گفتگو سے قبل یہ غلط فہمی دور کرلی جائے کہ مسلم لیگ (ن) نے کوئی یوٹرن لیا ہے یا وہ فوج سے رابطوں کی مخالف تھی۔ مسلم لیگ (ن) بھی ان پارٹیوں میں شامل ہے جن کے بارے میں وفاقی وزیر ریلویز شیخ رشید احمد کہتے ہیں کہ تمام موجودہ سیاسی پارٹیاں فوجی گملے کی پنیری ہیں وہ خود بھی ان میں شامل ہیں۔ اب شیخ رشید نے مریم نواز کے بیان پر کہا ہے کہ انہوں نے فوج سے مطالبہ کرکے اپنے بیان کی نفی کردی ہے۔ مریم نواز کے انٹرویو اور بیان میں تضاد بھی ہے اور خطرے کی بو بھی ہے۔ تضاد یہ ہے کہ جو کام وہ کرنے جارہی ہیں یعنی فوج سے مذاکرات یہ کس موضوع پر مذاکرات ہیں اور کیوں ہوں گے۔ وزیراعظم عمران خان تو صرف اتنا کہتے ہیں کہ فوج حکومت کے ساتھ ہے اور آئینی طور پر فوج حکومت کے ساتھ ہی ہوتی ہے۔ اور روایتی طور پر فوج ہی حکومت بناتی توڑتی ہے لیکن کوئی ثابت نہیں کرسکتا۔ البتہ 2018ء کے انتخابات میں ہونے والے واقعات کے بعد یہ الزام فوج کے ساتھ چپک گیا ہے کہ وہ تحریک انصاف کو برسراقتدار لائی اور اس نے عمران خان کو وزیراعظم بنایا۔ عمران خان کے یوٹرن کو باقاعدہ سیاسی حکمت عملی قرار دیا اور مسلم لیگ نے ہمیشہ اسے سیاسی مصلحت کا نام دیا۔ پیپلز پارٹی نے جتنے یوٹرن لیے یا یوٹرن والے فیصلے کیے وہ سب جمہوریت کی خاطر قربانی کے طور پر کیے۔ لہٰذا کسی پارٹی کے یوٹرن کو بُرا اور کسی کے یوٹرن کو اچھا کہنا قبل از وقت ہوگا۔
پاکستان کی تاریخ اور مسلم لیگ (ن) کی پیدائش اور پرورش کو سامنے رکھا جائے تو یہ اس کا یوٹرن نہیں رائٹ ٹرن ہے۔ اسے وہی کرنا چاہیے تھا۔ بلکہ اس کے سوا اس کے پاس کوئی راستہ بھی نہیں ہے۔ اس سارے ہنگامے کا اہم پہلو یہ ہے کہ پاک فوج خاموش ہے، مذاکرات کیوں کس لیے، کون کرے گا۔ یہ سوالات اپنی جگہ ہیں لیکن یوٹرن کے معاملے میں پی ٹی آئی کے وزیراعظم عمران خان صرف بدنام ہیں ورنہ کس نے یوٹرن نہیں لیا۔ پیپلز پارٹی ہو یا مسلم لیگ (ن) دونوں نے بار بار یہ کام کیا ہے۔ ہم یہ بات پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ ملک میں جاری ہنگامہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی نئی قیادت کو روشناس یا اس کی رونمائی کرانے کے لیے ہے۔ یہ رونمائی ہوچکی ہے، اب دونوں نئے لیڈروں کو دریا میں اُتار دیا گیا ہے۔ یعنی لانچنگ کردی گئی ہے۔ گلگت بلتستان کا معرکہ نیٹ پریکٹس تھا۔ دونوں کو انتخابی معرکوں کا بھی کچھ آئیڈیا ہوجائے اور ایسا ہی ہورہا ہے۔ اصل معرکہ عام انتخابات میں ہوگا وہ کب ہوں گے ابھی شاطر نے فرزیں کو اس کی اطلاع نہیں دی ہے۔ قبل ازوقت، مڈٹرم یا مدت کی تکمیل کے بعد۔ ایسا لگتا ہے کہ موجودہ حکومت اسی طرح چھوڑوں گا نہیں، سب کو جیل بھیجوں گا، ساری خرابیوں کی ذمے دار سابقہ حکومتیں ہیں، مہنگائی کی ذمے دار مافیاز ہیں، مافیا کو بھی نہیں چھوڑوں گا، ملک ترقی کی راہ پر آگیا ہے، بس آپ نے گھبرانا نہیں ہے کہتے کہتے گزر جائے گی اس حکومت کی مدت ان ہی شور شرابوں اور ہنگاموں میں گزرے گی۔ پھر نئی حکومت کے لیے معرکہ ہوگا اور جس نے جتنا اچھا رائٹ ٹرن لیا ہوگا اسے انعام ملے گا۔ یہ رائٹ ٹرن، رانگ اور رائٹ والا ہے رائٹ اور لیفٹ والا نہیں۔ خلائی مخلوق کو جس کا ٹرن پسند آیا اس کو ٹرن مل جائے گی۔ یوں لگتا ہے کہ باریاں اب بھی لگیں گی شاید دو کے بجائے تین کی باریاں ہوجائیں اور ایسا ایک بار ہی ہوتا نظر آرہا ہے کیوں کہ عمران خان اس کے بعد نئی باری کھیلنے کے قابل نہیں رہ سکیں گے اور ان کے پاس اولاد ہے نہ دماد… لہٰذا یہ کہانی تو ایک آدھ باری کے بعد ختم ہوجائے گی۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے کیا خوبصورتی سے اپنی نئی قیادت متعارف کرادی ہے۔ مقدمے، الزامات، مرنا مارنا، جان دینے والے کارکن وغیرہ سب کچھ دہرایا جائے گا لیکن کب؟ اس بارے میں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ باریاں بانٹنے والے کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ ابھی تو یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ گلگت بلتستان اسمبلی کے انتخابات کو اتنی اہمیت کیوں دی جارہی ہے۔ اس کے فوائد ہوں گے یا نقصان۔ جس طرح ملک میں پی ٹی آئی حکومت کے ذریعے بہت سے ایسے فیصلے کرالیے گئے ہیں جو مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے لیے مشکل ہوتے لیکن کرنے تو انہیں بھی پڑتے۔ کیا اس طرح کے فیصلے گلگت بلتستان میں کروائے جائیں گے۔ مثال کے طور پر 9 نومبر کو کرتارپور بارڈر کھولنا، بابری مسجد کے سانحہ کے فیصلے پر ایسے خاموش رہنا جیسے یہ فیصلہ پاکستانی سپریم کورٹ کا ہے۔ توہین عدالت نہ ہوجائے، کشمیر پر خاموشی، عالمی ساہوکاروں کو پنجے گاڑنے کی اجازت اور موقع دینا وغیرہ ہیں۔ اب وبا کی آڑ میں سیاسی سرگرمیاں بند کرنا وغیرہ سب کچھ شامل ہے۔ یہ سارے کام عمران خان کا رائٹ ٹرن ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کو پی ٹی آئی حکومت گرانے میں مکمل مدد دینے سے انکار یا رکاوٹ ڈالنا یا اِدھر اُدھر دیکھنا پیپلز پارٹی کا رائٹ ٹرن تھا جس سے اسے یا اس کی قیادت کو فائدہ ہوا ہے۔ ان حالات میں مسلم لیگ (ن) کو بھی رائٹ ٹرن لینا ہی تھا۔ اصل معاملہ اس وقت ٹھیک ہوگا جب عوام رائٹ ٹرن لیں گے۔ وہ یہ فیصلہ کرلیں کہ ہم اس نظریہ کے لیے کام کریں گے جس کے نام پر پاکستان بنا تھا۔ یہ ملک اسلامی بنا تھا ہم اسے اسلامی ہی بنائیں گے اس کے بغیر جتنے ٹرن لیے جائیں گے سب ٹامک ٹوئیاں کہلائیں گے۔