اُردو کے نفاذ میں انگریز کی ذہنی غلام اشرافیہ بڑی رکاوٹ ہے

607

کراچی (رپورٹ: جہانگیر سید)اُردو کو سرکاری زبان بنانا آئینی تقاضا ہے مگر اس کے باوجود اُردو ابھی تک سرکاری زبان نہیں بنی؟اس حوالے سے اُردو لغت بورڈ کے مدیر اعلیٰ ڈاکٹرشاہدضمیرکاکہناہے کہ25 فروری1948ء کو ملک کی پہلی قانون سازاسمبلی 1956ء اور 1962ء کے دستور میں بھی اُردو کو پاکستان کی سرکاری زبان قرار دیا ،1973ء کے دستور میں ریاست کو 15سال کے اندر دفاتراور تعلیمی اداروں میں اُردو کے عملی نفاذ کا پابند بنایاگیا ،پاکستان کی ہائی اور سپریم کورٹس نے بھی اُردو کے نفاذ کو یقینی بنانے کے احکامات صادر کیے اس کے باوجود اُردو اب تک سرکاری زبان کا درجہ حاصل نہ کر سکی۔ اس اہم ترین سوال کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ ہم قیام پاکستان سے آج تک غلامانہ ذہنیت سے نہیں نکل سکے ،آج بھی ہم انگریزی پر فخر کرتے ہیں ،ہمارا حکمراں طبقہ اپنے لیے قومی زبان اُردو کو حقیر اور انگریزی کو باعث فخر سمجھتا ہے ،جہاں ملک کے آقا ہی اپنی زبان سے نفرت کریں گے تو اسے نافذ کون کرے گا؟ حکمرانوں نے قانون، طب اور دیگر علوم کی کتابوں کو گوروں کی زبان انگریزی میں ہی جوں کا توں برقرار رکھا ہے، اسلامیات کو بھی انگریزی میں پڑھایا لکھایا جارہا ہے، دفاتر میں روزمرہ کی خط و کتابت زبان غیر میں کی جا رہی ہے، اس قومی المیے کا صرف ایک حل ہے کہ ہماری قوم ذہنی غلام آقائوں سے جتنا جلد ممکن ہو جان چھڑا لے یا ان کو مجبور کردے کہ وہ اپنی قومی زبان و تہذیب کو اوڑھنا بچھانا بنا لیں بہ صورت دیگر ہم ایک قوم ہونے کی عظیم نعمت سے محروم رہیں گے ہمیں استحصالی غلامانہ نظام سے کبھی چھٹکارا نہیں ملے گا۔ معروف اسکالر شاعر ادیب ، قائد اعظم اکادمی کے سابق ڈائریکٹر خواجہ رضی حیدر نے آئینی تقاضے کے باوجود اُردو کو سرکاری زبان کے طور پر نافذ نہ کرنے کے حوالے سے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد سے ملکی اداروں پر بیوروکریسی قابض ہوگئی جو انگریزوں کی تربیت یافتہ تھی اس نے پہلی قومی اسمبلی کی قرارداد کے برخلاف دفاتر میں اُردو کو سرکاری زبان کے طور پر نافد کرنے کے بجائے انگریزوں کے دفتری نظام کو عملاً نافذ کردیا تھا ،اس کے بعد کی اسمبلیوںنے بھی اررو کو سرکاری زبان بنانے کی شقیں شامل کیں لیکن بیوروکریسی نے ان آئین شکن اقدامات کا اعلیٰ عدالتوں نے بارہا نوٹس لیا لیکن ملک پر حکمراں طبقہ جس کی پشت پر بیوروکریسی ہی کارفرماں تھی اُردو کو سرکاری زبان نہ بننے دیا البتہ عوامی سطح پر اُردو کی ترویج و ترقی کے لیے بہت کام کیا گیا اس کے نفاذ کے لیے جدوجہد بھی ہوئی عوامی دبائوپر حکام نے مقتدرہ قومی زبان اور اُردو ادبیات جیسے وقیع سرکاری ادارے بھی قائم کیے یہ ادارے بھی بیوروکریسی کی دست برد سے نہ بچ سکے اس ضمن میں خواجہ رضی حیدر نے قائد اعظم اکادمی کا حوالہ دیا جس سے وہ طویل عرصہ وابستہ رہے جو قائداعظم کے نام پر قائم ہے ،یہاں بھی انگریزی کا ہی راج ہے یہ سب بیوروکریسی کی مہربانی کا ہی نتیجہ ہے۔جامعہ کراچی شعبہ اُردو کے سابق چیئرمین ، معروف شاعر ادیب پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی کے مطابق اُردوکا نفاذ آئینی اور عدالتی تقاضوں سے نہیں ہونے والا۔ انگریز آقائوں کی ذہنی غلام اشرافیہ اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اشرافیہ کا کام آئین پر عمل کرنا اور کرانا ہے۔ حکمران طبقے نے بیوروکریسی کے ساتھ مل کر قومی مفاد کے خلاف انگریزی قوانین کو ملک پر نافذ کردیا جس کا مقصد انگریزوں کی طرز پر عوام کو اپنا غلام بنا ئے رکھنا تھا ۔دیسی آقائوں نے قوم کو دکھانے کے لیے دستاویز میں اُردو کے نفاذ جیسی باتیں بھی ڈال دیں لیکن جان بوجھ کر عملدرآمد کا طریقہ کار واضح نہیں کیا ۔اعلیٰ عدالتوں نے بھی آئین پرعملدرآمد نہ کرانے کے ذمے دار حکمرانوں کو سزائیں نہ دیں وجہ یہ ہے کہ ہمارا عدالتی نظام بھی انگریزی پر ہی قائم ہے۔ دوسری جانب نوکر شاہی اداروں میں انگلش کا تسلط کو مستحکم کرتی رہی ،پیشہ ورانہ اور تعلیمی ادارے بھی فرنگی نظام کی مکمل لپیٹ میں آگئے، غرض پورا ملک افسر شاہی نوکر شاہی کی ملک پر حکمرانی ہے مطلب یہ کہ ہمارا حکمران طبقہ اپنا اور اپنے بچوں کا مستقبل انگریزی میں دیکھتے ہیں اسی بنا پر برصغیر میں 200برس حکمرانی کرنے والی اُردو زبان کو پیشہ ورانہ عملی زندگی سے نکال باہر کیا ،قوم 2 واضح طبقات میں تقسیم کردی گئی ایک حکمراں اور دوسرا محکوم طبقہ جو انگریزی نہیں سمجھتا جس کی وجہ سے حکمرانوں کی لوٹ مار سے عوام بے خبر رہتے ہیں جس اشرافیہ کو اُردو پڑھنا نہیں آتی اس نے پیغام رسانی کا ذریعہ رومن انگلش کو بنا لیا جس وجہ سے محکوم انگریزی اور اُردودونوںطبقے میں قربت کے بجائے دوری بڑ گئی ہے۔