جہنم سے بدتر زندگی، کیا نجات خودکشی میں ہے؟

715

جب بلوچستان یونیورسٹی کے 19 سالہ طالب علم ہدایت اللہ نے دو مہینوں میں تیسری دفعہ سکون آور گولیاں کھا کر خودکشی کرنے کی کوشش کی تو اس کے والدین نے بالآخر فیصلہ کیا کہ ان کے لخت جگر کو نفسیاتی علاج کی ضرورت ہے۔ کوئٹہ کے ایک معالج کے مشورے پر جب وہ اپنے بیٹے کو کراچی کے جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کے شعبہ نفسیات میں لائے تو انہیں بتایا گیا کہ ہدایت اللہ شدید مایوسی، یاسیت اور ڈپریشن کا شکار ہے، لیکن حوصلہ افزا خبر یہ تھی کہ ان کا بیٹا علاج کے بعد نارمل زندگی گزارنے کے قابل ہو سکتا ہے۔ شعبہ نفسیات میں ایک ہفتہ زیر علاج رہنے کے بعد جب ہدایت اللہ نے اپنے والدین سے وعدہ کیا کہ آئندہ وہ ایسی کوئی حرکت نہیں کرے گا اور باقاعدگی سے دواؤں کا استعمال کرے گا تو اس کے والدین کو قرار آیا اور وہ اسے واپس گھر لے جانے پر تیار ہوگئے۔ لیکن پاکستان میں خودکشی کی کوشش کرنے والا ایک صرف ہدایت اللہ ہی نہیں بلکہ کہ ماہرین کے مطابق صرف کراچی کے جناح اسپتال میں روزانہ دس سے بیس ایسے مریض لائے جا رہے ہیں جن کے ذہنوں میں خودکشی کرنے کے خیالات جنم لے رہے ہیں، ان میں سے دو سے تین لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہوں نے خودکشی کرنے کی باقاعدہ کوشش کی ہوتی ہے جبکہ وہ لوگ جو روزانہ کراچی اور پاکستان کے مختلف شہروں میں اپنی زندگیوں کا خاتمہ کر رہے ہیں، ان کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے کیونکہ انہیں اتنا موقع ہی نہیں مل پاتا کہ وہ کسی نفسیاتی علاج گاہ تک پہنچ سکیں اور اپنا علاج کروا سکیں۔ ماہرین نفسیات کے مطابق خودکشی یا اپنی زندگی کے خاتمے کے رجحانات پیدا ہونا ایک نفسیاتی عارضہ ہے جس کی سب سے بڑی وجہ ڈپریشن ہے۔
ملک کے نامور ماہر نفسیات اور پاکستان سائیکاٹرک سوسائٹی کے صدر پروفیسر اقبال آفریدی کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا کے بعد پاکستان میں خودکشی کے رجحانات میں 35 فی صد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے، جس کی بنیادی وجوہات خراب معاشی حالات، غیر یقینی کی کیفیت، مستقبل کی فکریں، تفریحی سہولیات کی کمی اور غیر صحت مندانہ طرز زندگی ہیں۔ پروفیسر اقبال آفریدی کا کہنا ہے کہ ایسے حالات میں جب کہ پاکستان کے معاشی حالات انتہائی ابتر ہوچکے ہیں اور مستقبل غیر یقینی ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ نہ صرف حکومت بلکہ عام لوگ ذہنی صحت میں سرمایہ کاری کریں تاکہ وہ ذہنی امراض سے محفوظ رہ کر خراب حالات سے مقابلہ کر سکیں۔ لیکن ذہنی صحت میں سرمایہ کاری کیسے کی جائے؟ ذہنی صحت میں سرمایہ کاری سے ان کی مراد یہ ہے کہ لوگوں کو چاہیے کہ وہ روزانہ ورزش کریں، صحت مندانہ طرز زندگی اختیار کریں، موبائل اور اسکرین ٹائم کو کم کرتے ہوئے کھیل کود اور دیگر جسمانی سہولتوں میں وقت صرف کریں، اپنے اپنے مذہبی عقائد کے مطابق عبادت کریں اور سماجی رویوں میں اعتدال کا راستہ اختیار کریں۔ اس وقت کورونا وائرس کا خوف اور گھبراہٹ جیسی بیماریاں منظرعام پر آ رہی ہیں جبکہ جسمانی فاصلہ اختیار کرنے کی احتیاط نے
بھی ایک ذہنی مرض کی صورت اختیار کر لی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ذہنی امراض میں مبتلا افراد کو بغیر کسی جھجک کے معالجین سے رجوع کرنا چاہیے کیونکہ یہ تمام بیماریاں قابل علاج ہیں اور انسان علاج کے بعد صحت مند زندگی گزارنے کے قابل ہوجاتا ہے۔ دوسری جانب پاکستان میں بابائے نفسیات کہلائے جانے والے پروفیسر ہارون احمد کہتے ہیں کہ کورونا وائرس کی وبا کے دوران کچھ نئی طرز کی ذہنی بیماریاں منظر عام پر آنا شروع ہوئی ہیں جن میں کچھ لوگوں میں تشدد سہنے کے بعد کی علامات یا پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر کی کیفیات، ڈپریشن کی ایک نئی قسم کا سامنے آنا اور نشہ آور ادویات کا حد سے زیادہ استعمال شامل ہے، کئی لوگوں میں کورونا وائرس کا خوف اور گھبراہٹ جبکہ لوگوں سے جسمانی میل جول نہ رکھنے کا رجحان بھی غیر صحت مندانہ طور پر بڑھا ہوا دیکھا جا رہا ہے، کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے لوگوں کا رہن سہن تبدیل ہوا ہے جس کے نتیجے میں ذہنی مسائل بڑھ رہے ہیں اور اب ذہنی امراض کی شرح میں پاکستان سمیت دنیا بھر میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، ذہنی امراض کی شرح خاص طور پر جنگ زدہ ممالک اور معیشت کی تباہی کا شکار ممالک جن میں شام، عراق، یمن، افغانستان اور کسی حد تک پاکستان شامل ہیں، میں بڑھ رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں عوام اور حکومتوں کو ذہنی صحت میں مزید سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ حکومتوں کو ذہنی صحت کے لیے مزید وسائل فراہم کرنے چاہییں جبکہ عوام کو اپنی ذہنی صحت کے لیے زیادہ وقت دینا چاہیے تاکہ وہ اور ان کے اہل خانہ ذہنی مسائل سے محفوظ رہ سکیں۔ دوسری جانب امریکا کے بیلر کالج آف میڈیسن، ہیوسٹن میں نفسیات کے پروفیسر عاصم شاہ سمجھتے ہیں کہ کورونا وائرس کی وبا کے نفسیاتی اثرات کم از کم ایک دہائی تک جاری رہ سکتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اگر ایک دن کے حادثے، دہشت گردی کی واردات یا زلزلے جیسی آفات کے اثرات برسوں پر محیط ہو سکتے ہیں تو یہ وبا تو اس وقت پوری شدت سے جاری و ساری ہے اور اس کے خاتمے کا جلد کوئی امکان نظر نہیں آتا۔
پاکستانی اور پاکستانی نژاد غیر ملکی ماہرین نفسیات کا کہنا ہے ان غیر یقینی حالات میں پاکستان جیسے ملک میں میں فیملی سسٹم یا خاندانی نظام کو مضبوط بنا کر نفسیاتی عوارض کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے، جبکہ دوسری طرف ضرورت اس امر کی ہے کہ نفسیاتی مسائل کا ادراک کیا جائے، ذہنی مسائل کے علاج کے لیے ماہرین نفسیات سے رجوع کیا جائے اور حکومت کو چاہیے کہ نفسیاتی علاج گاہوں کی تعداد میں فوری طور پر اضافہ کرے۔ان حالات میں پاکستانی عوام کی بدقسمتی یہ ہے کہ ایک طرف انہیں نفسیاتی امراض اور ان کے علاج کا شعور ہی نہیں جبکہ دوسری جانب پاکستان بھر میں صرف ڈیڑھ سو سے دو سو تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ ماہرین نفسیات موجود ہیں جن میں سے اکثریت پرائیویٹ پریکٹس کرتی ہے جہاں پر زیادہ تر مریضوں کی رسائی ممکن ہی نہیں۔ان تمام حالات کے باوجود پروفیسر اقبال آفریدی سمیت دیگر ماہرین نفسیات پرامید ہیں کہ اگر حکومت اور نجی شعبہ چاہیں تو پاکستان میں نفسیاتی علاج کی سہولتوں کو عام آدمی کی دسترس میں لاکر سیکڑوں افراد کو نہ صرف خود کشی کرنے سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے بلکہ لوگوں کے معیار زندگی کو بھی بلند اور بہتر بنایا جاسکتا ہے۔