جاپان کی دفاعی پالیسیوں میں تبدیلی کے اشارے

254

دنیا کی تاریخ میں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ہونے والے ایٹم بم کے حملوں کے نفسیاتی اثرات آج بھی جاپانیوں کے طرز عمل میں نمایاں نظر آتے ہیں۔ ان حملوںکے متاثرین دنیا کے امن کو برقرار رکھنے کے لیے وقتا فوقتاً یہ باور کروانے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں کہ جوہری ہتھیاروں پر کلی طور پر پابندی ہی امن عالم کی ضمانت ہے۔ ایسی ہی ایک مہم ان دنوں جاپان میں دوسری جنگ عظیم کے متاثرین اور چند دیگر امن پسند گروپ چلانے میں مصروف ہیں، جن کی جانب سے جاپانی حکومت کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ وہ جوہری ہتھیاروں پر پابندی عائد کرنے کے اقوام متحدہ کے معاہدے کی توثیق کردے۔ اس سلسلے میں متاثرین نے دستخط جمع کرنے کی مہم کا آغاز کر دیا ہے۔
واضح رہے کہ جوہری ہتھیاروں کی ممانعت سے متعلق معاہدہ درکار 50 ممالک کی توثیق کی شرط پوری ہونے کے بعد جنوری سے نافذ ہوجائے گا، لیکن جاپان ان ممالک میں شامل ہے جنہوں نے معاہدے پر دستخط نہیں کیے ہیں جبکہ امریکا، روس اور چین سمیت ایٹمی طاقتیں بھی اس معاہدے میں شامل نہیں ہوئیں۔
اس مہم کے سلسلے میں ایٹم بم متاثرین اور امن پسند غیر سرکاری تنظیموں نے گزشتہ ہفتے ٹوکیو میں ایک ریلی بھی نکالی، جس میں بڑے پیمانے پر دستخطی مہم شروع کرنے کا اعلان کیا گیا۔ بعد ازاں مہم میں اس وقت تیزی دیکھنے میں آئی جب جاپانی تنظیم نیہون ہیدانکیو ( ایٹم اور ہائیڈروجن بم متاثرین کے تنظیمی اتحاد) کے شریک صدر، تاناکا تیرُومی نے حکومت کو اپنی جوہری پالیسی میں تبدیلی پر مجبور کرنے کے لیے مہم کو مزید وسعت دینے پر زور دیا۔ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ بطور دنیا کے واحد ملک کے جو ایٹمی بمباری کا شکار ہوا ہے، جاپان کو جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کی تحریک کی صف اول میں کھڑا ہونا چاہیے۔
تحریک میں زندگی کے مختلف شعبوں سے وابستہ افراد کی بڑی تعداد شامل ہو رہی ہے، جس کی ایک مثال مشہور جاپانی اداکار تاکارادا آکیرا بھی ہیں جنہوں نے ایک وڈیو پیغام میں مطالبہ کیا ہے کہ جاپان بغیر کسی ہچکچاہٹ کے معاہدے کی توثیق کرے کیوں کہ جاپان ایٹم بموں کا حملہ سہنے والا پہلا ملک تھا۔ اس کے علاوہ اس مہم کی حمایت کرنے والوں میں مصنفین سمیت کئی اہم شخصیات بھی شامل ہیں۔
امن پسند تحریک شروع ہونے کے بعد ملک بھر سے دستخط جمع کیے جا رہے ہیں، علاوہ ازیں اس سلسلے میں ایک آن لائن پٹیشن کی بھی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ گزستہ ہفتے نکالی جانے والی ریلی میں جاپان کی مختلف جامعات سے طلبہ کی بڑی تعداد جوہری ہتھیاروں کے خلاف اپیل کے لیے جمع تھی۔ ریلی میں حصہ لینے والے یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے ایٹمی تباہی کاری کی مذمّت کرتے ہوئے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ حکومت جاپان جوہری ہتھیاروں پر پابندی کے معاہدے کی توثیق کرنے میں تاخیر نہ کرے۔
جاپان دنیا کا واحد ملک ہے جس نے بطور پالیسی طویل عرصے تک ایٹمی ہتھیاروں کے فروغ کی مخالفت کی۔ واضح رہے کہ 1952ء کے بعد سے جاپان کا دفاع امریکا کی ذمے داری ہے، لیکن گزشتہ وزیراعظم شنزو آبے اور ان کے استعفے کے بعد ان ہی کی پارٹی کے وزیر اعظم سوگا یوشی ہیدے کی حکومت کی جانب سے جاپان کے دفاع کے حوالے سے ایسے اشارے مل رہے ہیں جس سے جاپان کی پالیسیوں میں تبدیلی کے امکانات نظر آرہے ہیں۔