طاقتورطبقے کے دبائو کے تحت مرتب کی جانے والی معاشی پالیسیوں کے سنگین نتائج سامنے آنا شروع ہوگئے،ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی

1164

کراچی (رپورٹ :اے اے سمنانی )معروف ماہر معاشیات ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے کہا ہے کہ  ڈالرائزیشن پاکستان کی سلامتی اور معیشت کے لیے خطرہ ہے۔ لوگوں کو مائل کیا جارہا ہے کہ روپوں کو ڈالر میں تبدیل کریں اور اس پیسے کو باہر بھیج کر سرمایہ کاری کریں،معیشت میں بہتری کے دعوے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے،طاقتور طبقے کے دبائو کے تحت مرتب کی جانے والی معاشی پالیسیوں کے سنگین نتائج سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں،اسٹیٹ بینک بھی طاقتور طبقے کے مالی مفادات کو تحفظ فراہم کر رہا ہے.معیشت  کی زبوں حالی کی وجہ سے عوام مایوس اور بددل ہورہے ہیں،اقتصادی بحران کی وجہ سے حکمران آسانی سے  بیرونی ڈکٹیشن قبول کر رہے ہیں جو ملکی سلامتی اور معیشت کے لیے خطرناک ہے۔ امریکی حکمت عملی ’’نیو گریٹ گیم ‘‘کا ہم نہ صرف شکار ہورہے ہیں بلکہ عملاً اس کے معاون بھی ہیں۔ آئی ایم ایف کے پاس  جانا ناگزیر ہوچکا .ان خیالات کا اظہار انہوں نے روزنامہ جسارت کے نمائندے سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کیا.انہوں نے مزید کہا کہ طاقتور طبقے کے دبائو پر مرتب کردہ حکومتی پالیسیوں کے بھیانک اثرات نے تیزی سے ملک کو جکڑ لیا ہے ، حکومت کی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم سے بدعنوان عناصر کو بھرپور فائدہ پہنچایا جارہا ہے، غیر قانونی طور پر بیرونی ممالک میں رکھی رقم کا صرف 6 فیصد ادا کر کے اثاثوں کو قانونی تحفظ دے دیا اور ان کی دولت کو ٹیکس گوشواروں میں بھی ظاہر کیا گیا لیکن تمام رقم بیرونی ملکوں میں رہنے دی ہے ، اب حکومت ان افراد کو ساڑھے 5سے 7فیصد تک سالانہ شرح سود دینے کی پیشکش کررہی ہے ،تشویشناک بات یہ ہے کہ بہت سے لوگ پاکستان سے بینکوں کے ذریعے ڈالرز خرید کر پیسہ باہر لے جاتے ہیں بیرون ملک میں مقیم اپنے پاکستانی رشتے داروں کے نام پر جمع کرتے ہیں اور 5سے 7فیصدشرح سود وصول کرتے ہیں،اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ملک میں رہائش پذیر پاکستانیوں کو بھی کچھ شرائط پر بیرونی ممالک سے ترسیلات منگوا کر نیا پاکستان سرٹیفکیٹ میں سرمایہ کاری کرنے کی اجازت دے دی ہے،یہ شیطانی چکر اور ڈالرائزیشن پاکستان کی سلامتی اور معیشت کے لیے خطرہ ہے،پاکستان امریکی حکمت عملی ’’نیو گریٹ گیم ‘‘کا نہ صرف شکار ہورہا ہے بلکہ عملاً اس کا معاون بھی ہے اور آئندہ بھی آئی ایم ایف کے چنگل سے چھٹکارا نہیں مل سکے گا، اصل پریشانی یہ ہے کہ نیو گریٹ گیم کے تحت نوآبادیاتی نظام کی ایک نئی شکل میں واپسی کی راہ ہموار کی جارہی ہے جس کا سنجیدگی سے نوٹس لینا ناگزیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ  اس سہولت سے وہ بدعنوان عناصر بھی فائدہ اٹھا سکیں گے جنہوں نے پاکستان سے رقوم لوٹ کر بیرونی ملکوں میں منتقل کی تھی اور پھر تحریک انصاف حکومت کی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ اٹھا کر صرف 6 فیصد رقوم کی ادائیگی پر ان اثاثوں پر قانونی تحفظ بھی حاصل کرلیا اور ان کو دولت ٹیکس کے گوشواروں میں بھی ظاہر کردیا مگر اس پیسے کو باہر ہی رہنے دیا۔ اب صورتحال یہ تھی کہ ملک سے باہر جو ڈالر ڈپازٹس ہیں ان پر شرح سود نہ ہونے کے برابر ہے، اب حکومت نے ان افراد کو بھی ساڑھے 5فیصد سالانہ سے 7 فیصد سالانہ تک شرح سود کی پیشکش کی ہے۔ بالکل واضح ہے کہ یہ قدم اضطراری کیفیت میں اٹھایا گیا ہے کیونکہ اسٹیٹ بینک کے زرِ مبادلہ کے ذخائر اس حکومت کے دور میں بہت تیزی سے گرے ہیں۔ عمران خان نے حلف اٹھایا تھا تو اس وقت اسٹیٹ بینک کے زرِ مبادلہ کے ذخائر 10.2 ارب ڈالر تھے لیکن 19 جون 2020ء کو یہ 10ارب ڈالر سے بھی نیچے چلے گئے۔ اس وقت بہر حال یہ ذخائر 12ارب ڈالرز ہیں مگر حکومت اور اسٹیٹ بینک اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ اس مدت میں ملک کے بیرونی قرضوں میں 17ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے جبکہ یہ جو 12ارب ڈالر کے ذخائر ہیں اس میں اکائونٹنگ جادوگری کا شاہکار بھی نظر آتا ہے اوربالفاظ دیگر انہیں آپ مصنوعی بھی کہہ سکتے ہیں جو کہ اصل ڈپازٹ نہیں ہے۔اُن کا مزید کہنا تھا کہ اب ایک اور پریشانی کی بات اس وقت یہ ہے کہ ہماری معیشت روبہ زوال ہے۔ گزشتہ 2برس میں جولائی سے ستمبر 2020ء تک برآمدات میں کمی ہوئی ہے،تجارتی خسارہ بڑھا ہے،جاری حسابات کا خسارہ اس سال یعنی مالی سال 2021ء میں گزشتہ سال یعنی 2020ء کے مقابلے میں دگنا ہونے کا اندیشہ ہے۔ اس حکومت کے دور میں مجموعی اور براہ راست بیرونی سرمایہ کاری بھی گری ہے۔ معیشت کی شرح نمو صرف ایک فیصد رہ گئی ہے جبکہ انہیں 5فیصد ورثے میں ملی تھی۔ مہنگائی تیزی سے بڑھ رہی ہے جس سے غربت اور بیروزگاری میں اضافہ ہورہا ہے۔ جس سے عوام کی تکالیف میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ اب ایسا نظر آتا ہے کہ حکومت ان تمام چیزوں کو پس پشت ڈالنے کے لیے ملک میں سیاسی افراتفری اور احتجاج کلچرکو فروغ دے رہی ہے تاکہ یہ معاملات نظر انداز کیے جاسکیں اور اس قسم کے جھوٹے دعوے بھی کیے جارہے ہیں کہ معیشت نہ صرف بہتر ہوئی ہے بلکہ درست سمت میں جارہی ہے۔یہ جب تک حقائق کو تسلیم نہیں کریں گے ملک میں بہتری نہیں آئے گی۔ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کا کہنا تھا کہ پاکستان کو دراصل ایک شیطانی چکر میں پھنسایا گیا ہے۔ یہ تو پہلے ہی سے ہورہا تھاکہ انکم ٹیکس آرڈیننس(4) 111کے تحت ترسیلات کو بڑھایا جائے جو باہر سے آرہی ہیں اور برآمدات کو اس لیے گرنے دیا جائے کہ آپ برآمد کنندگان پر ٹیکس لگا رہے ہیں، بجلی گیس اور پیٹرول کے نرخ بڑھارہے ہیں تو برآمد ات کو گرنے دینے اور ترسیلات کو تیز کرنا اس حکومت کے دور میں بڑھاہے اور اس پر فخریہ انداز میں یہ کہا جارہا ہے کہ ہم جاری حسابات کے خسارے کو کم کررہے ہیں مگر یہ تو ترسیلات سے کم کیا جارہا ہے جوکہ آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے کیونکہ یہ ترسیلات تو اصل میں ملک کی سرمایہ کاری کی طرف جانی چاہیے تھیں۔ ایک تو یہ شیطانی چکر تھا ہی اب ایک دوسرا شیطانی چکر یہ شروع ہوگیا ہے کہ ملک کو اب ڈالرائزیشن کی طرف لے جایا جارہا ہے۔ لوگوں کو مائل کیا جارہا ہے کہ نئے روپوں کو ڈالر میں تبدیل کریں اور اس پیسے کو باہر بھیج کر سرمایہ کاری کریں۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟۔ اب بہت سے لوگ یہاں سے بینکوں کے ذریعے ڈالرز خرید کر پیسہ لے جاتے ہیں اور وہ پیسہ ان کے رشتے دار جو کہ پاکستانی ہیں مگر وہ غیر رہائشی (Non-resident) ہیں ان کے نام جمع کرتے ہیں اوراس پر 5سے 7فیصدپر لگاتے ہیں۔ یہ شیطانی چکر اور ڈالرائزیشن پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔ اس لیے کہ اس سے معیشت روبہ زوال ہوگئی ہے۔ ان کا اس صورت حال پر مزید کہناتھا کہ’’ اصل میں ہوا یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اپنی صفوں میں موجود طاقتور طبقات کے دبائو پر انتخابات سے چند ہفتے پہلے ہی جاری 10نکاتی حکمت عملی اور انتخابی منشور دونوں ہی سے مکمل انحراف کیا ہے اور طاقتور طبقات کے دبائو پر پالیسیاں مرتب کی گئیں جبکہ اسٹیٹ بینک بھی ان کے ساتھ تعاون کرتارہا۔ اب معیشت روبہ زوال ہوگئی، پاکستان ایک شیطانی چکر میں پھنس گیا جس کو چھپایا جارہا ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ صورتحال سے معیشت کمزور ہورہی ہے، عوام مایوس اور بددل ہورہے ہیں اور حکومت کمزور ہورہی ہے چنانچہ وہ بیرونی ڈکٹیشن زیادہ آسانی سے قبول کرے گی۔ سلامتی اور معیشت کے لیے خطرات بڑھتے رہیں گے۔ امریکی حکمت عملی ’’نیو گریٹ گیم ‘‘کا ہم نہ صرف شکار ہورہے ہیں بلکہ عملاً اس کے معاون بھی ہیں۔ آئی ایم ایف کے پاس آئندہ لازماً جانا پڑے گا اور مجھے جو اصل پریشانی ہے وہ یہ ہے کہ نیو گریٹ گیم کے تحت نوآبادیاتی نظام کی ایک نئی شکل میں واپسی کی راہ ہموار کی جارہی ہے جس کا آپ کو بہت سنجیدگی سے نوٹس لینا ہوگا۔ چونکہ اب یہ بات واضح ہے کہ جب اس حکومت کے 5سال ختم ہوں گے تو معیشت کی شرح نمو اس سے سست ہوگی جو کہ ان کو ورثے میں ملی۔ مہنگائی کی اوسط شرح اس سے زیادہ ہوگی جو ان کو ورثے میں ملی،قرضوں کا بوجھ بے تحاشا ہوگا اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اب یہ واضح ہوگیا ہے کہ 2050ء تک بھی ہمارا خدانخواستہ ہر بچہ اسکول نہیں جارہا ہوگا، ہماری فی کس آمدن او ای سی ڈی ممالک تک نہیں پہنچے گی اس سے نیچے رہے گی اور ہم ترقی کی دوڑ میں اپنے پڑوسی ممالک سے خدانخواستہ پیچھے رہ جائیں گے۔ جس کا قوم کو سنجیدگی سے نوٹس لینا ہوگا۔