نیب کا امتیازی رویہ

290

عدالت عظمیٰ نے ریمارکس دیے ہیں کہ نیب کے امتیازی رویے سے کرپشن کے خلاف مہم ناکام ہو رہی ہے۔ عدالت عظمیٰ کے جج جسٹس قاضی محمد امین نے کہا کہ میں نیب کے رویے سے خوش نہیں۔ یہ ریمارکس اسلام آباد یونین کونسل روات کے سابق سیکرٹری کی درخواست ضمانت کی سماعت کے دوران دیے گئے۔ عدالت نے ملزم کی پلی بارگین کی درخواست پر ایک ماہ میں فیصلے کی ہدایت کر دی۔ اس مقدمے میں دیگر تین ملزمان کو محض اس لیے نہیں پکڑا جا رہا ہے کہ وہ سی ایس ایس آفیسر اور اسسٹنٹ کمشنرز ہیں اور خاتون بھی ہیں۔ اس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ کیا سی ایس ایس افسران ملزمان نہیں ہوتے۔ اسی رویے کی وجہ سے کرپشن کے خلاف مہم ناکام ہو رہی ہے۔ ظاہر ہے 436 لوگوں میں سے صرف شریف خاندان کے خلاف مہم پر زور کے نتیجے میں کرپشن کے خلاف مہم کو متنازعہ اور امتیازی ہی قرار دیا جائے گا۔ لیکن یہاں بھی عدالت کے ریمارکس تک بات محدود ہے۔ عدالت یہ سمجھتی ہے کہ نیب کا رویہ امتیازی ہے تو اس کو رویے کی اصلاح کا حکم دے اور ایک معقول مدت میں نیب اصلاح نہ کرے تو اس کے خلاف ان اختیارات کا استعمال کرے جن کا ذکر ریمارکس میں کیا گیا ہے۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے بار بار نیب حکومت عدالت عظمیٰ اور پارلیمنٹ کو متوجہ کیا ہے کہ 436 افراد کے خلاف مقدمہ لے کر جماعت اسلامی عدالت گئی تھی لیکن حکومت اور نیب نے صرف مخصوص لوگوں کے خلاف احتساب شروع کردیا۔ خود حکومت کی صفوں میں نیب زدہ لوگ بیٹھے ہیں۔علاوہ ازیں ملک بھر میں کئی خواتین خصوصاً شریف خاندان اور پیپلز پارٹی کی خواتین کو بھی نیب کی گرفت میں لیا گیا ہے تو پھر اسلام آباد کی خاتون افسر کو کیوں رعایت دی گئی۔ ان سب سے زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ نیب کے چیئرمین خود متنازع ہیں اور ان کے خلاف جو الزامات ہیں ان کا فیصلہ ہونے تک ان کے ہاتھ میں لوگوں کی قسمت کے فیصلے نہیں ہونے چاہییں۔