سراپا دعوت و محبت، عبدالغفار عزیز ؒ

647

جب مجھے پہلے پہل پتا چلا کہ بھائی عبدالغفار عزیز ؒ کو کینسر ہے اور کینسر بھی آخری اسٹیج کا ہے، تو میں لرز اٹھا تھا یقین نہیں آیا۔ میرے حلقہ کے ایک نوجوان وجاہت نے مجھے فون کیا تھا، وجاہت ایک معروف اینکر و نیوز کاسٹر ہے۔ اس کے والد ندیم خان ہمارے حلقہ کے رکن جماعت تھے اور اسی طرح کے کینسر میں فوت ہوئے تھے میں نے بے یقینی سے پوچھا، وجاہت تمہیں کیسے پتا چلا؟۔ میرے لیے یہی سوہان روح تھا کہ اگر یہ خبر حقیقت ہے تو میں اس سے کیوں بے خبر ہوں۔ تب اس نے بتایا کہ احمد فوزان میرا قریبی دوست ہے اور یہ بات مجھے فوزان نے بتائی ہے اور یہ بھی بتایا کہ ابھی ہماری امی کو بھی خبر نہیں۔ منصورہ میں صرف امیر جماعت اور قیم جماعت کو معلوم ہے۔ میں نے اگلے روز دھڑکتے دل سے برادرم امیر العظیم سے پوچھا تو انہوں نے تصدیق کی اور یہ بھی کہ علاج شروع ہوا ہے، اگرچہ علاج کی اسٹیج گزر چکی ہے میں نے پوچھا کہ خود انہیں خبر ہے تو امیر العظیم نے حیران کردیاکہ ہاں، وہ پوری تفصیل سے آگاہ ہیں۔ حیرانی کی اصل بات یہ تھی کہ عبدالغفار عزیز ؒ تو اسی طرح ہنستے مسکراتے مل رہے تھے اسی طرح خندہ پیشانی کا مظاہرہ کررہے تھے اسی طرح ان کے چہرے پر ایک ملکوتی تبسم تھا اسی طرح خوشی و سرشاری ان کے چہرے پر کھلتی تھی۔ اسی طرح وہ میٹنگز میں مستعد تھے اسی طرح اپنی رائے کا گرم جوشی سے اظہار کررہے تھے، حالانکہ کینسر کی خبر پاکر لوگ جیتے جی مر جاتے ہیں، ان کی مسکراہٹیں غائب ہو جاتی ہیں ان سے چلا نہیں جاتا، بولا نہیں جاتا، کھایا پیا نہیں جاتا، لیکن الٰہی یہ تیرا کیسا بندہ ہے، راضی برضا۔ اپنے رب سے راضی۔ میں نے طے کر لیا کہ میں عبدالغفار عزیز ؒ کو پتا نہیں چلنے دوں گا کہ مجھے پتا ہے میں بھی کسی تشویش کے بغیر ان کی محبت کی خوشبو سمیٹ رہا تھا، حتیٰ کہ ایک دن ان کی مرض کی شدت نے زمانے بھر کو خبر کردی، پھر اس کے بعد ایک لمبی داستان ہے دعائے نیم شبی کی، منصورہ اسپتال میں تیمارداری کی، براہ راست بار بار ملنے کو غیر مناسب سمجھتے ہوئے روزانہ ڈاکٹر انوار بگوی صاحب سے خیریت معلوم کرنے کی، فوزان کو فون کرنے کی ہمت نہ پا کر مسیج کرنے کی، حتیٰ کہ چار اور پانچ اکتوبر کی درمیان شب آگئی جب اللہ نے اپنے اس محبوب بندے کو پکارا ’’یایتھاالنفس المطمئنہ ارجعی الی ربک راضیۃ مرضیہ ‘‘۔ اے نفس مطمئنہ، اے پاکیز روح، اے میرے پیارے بندے لوٹ آ اپنے ربّ کی طرف وہ بھی تجھ سے راضی اور تو بھی اس سے راضی۔ تب اس عظیم انسان نے اپنے ربّ کی رضا پر راضی انسان نے ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کہتے ہوئے کلمہ پڑھتے ہوئے اگلے جہاں کے دروازے میں قدم رکھا، ’’حاضر میرے ربّ میں حاضر‘‘۔
ہمارے لیے تو ان کے والد گرامی محترم حکیم عبدالرحمن عزیز ؒ کی زندگی بھی بہت مثالی تھی جو پتوکی سے لے کر مورو سندھ کی وادیوں تک پھیلی ہوئی ہے۔ دعوت و عزیمت کی داستان کا لمحہ لمحہ خود ایک تاریخ تھا۔ تحریک تحفظ ختم نبوت کے دوران ہم نے پتوکی میں بھی جلسہ کیا تھا، ہر لحاظ سے ایک عظیم الشان جلسہ تھا اور جس کی کامیابی حکیم صاحب ؒ کی مرہون منت تھی۔ حکیم عبدالرحمن عزیزؒ اکثر مجھے ابا جی (مولانا گلزار احمد مظاہریؒ) کے سندھ کے دوروں کی پر جوش کہانی سناتے۔ ایسے میں محسوس ہوتاکہ حکیم صاحب ؒ تحریک اسلامی کی خود ایک تاریخ ہیں ان کا سینہ دعوتی تجربات اور عوامی جلسوں کی معرکہ آرائی سے بھرا ہوا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے حکیم صاحب ؒ کی باسعادت زندگی کے لمحے لمحے کو صدقات جاریہ کا مرکز بنادیا تھا۔ ان کے تینوں بیٹے ان کے لیے صدقہ جاری تھے۔ ڈاکٹر حبیب الرحمن عاصم، سیف الرحمن اور عبدالغفار عزیز ؒ بلاشبہ جماعت اسلامی کے شعبہ امور خارجہ کو بڑی اعلیٰ شخصیات کی سربراہی حاصل رہی ہے۔ ان میں مولانا خلیل احمد حامدی ؒ کی شخصیت ایک کرشماتی شخصیت تھی۔ عرب مانتے ہی نہیں تھے کہ یہ غیر عرب ہیں۔ بات کرتے، فصاحت و بلاغت کے دریا بہنے لگتے۔ تقریر کرتے تو عرب، نوجوانوں کے دل تڑپ اٹھتے، ان کی تحریریں علم کا سمندر تھیں۔ وہ عرب کے سوز و ساز کو یوں جانتے تھے۔ جیسے ان کی اٹھان صحرائے عرب کی بادیہ نشینی میں ہوئی ہے، مولانا خلیل احمد حامدی ؒ کی حادثاتی رحلت کے بعد لگتا تھا کہ یہ خلا کبھی پورا نہ ہوسکے گا۔ دل مدتوں عربی لب و لہجہ کی اس کھنک کو ترستے رہیں گے جو حامدی ؒ صاحب کو عرب و عجم میں مقبول بنا دیتی تھی۔ پھر جب عبدالغفار عزیز ؒ آئے تو تھوڑی ہی مدت میں محبت فاتح عالم کی تصویر بن گئے۔ انہوں نے خلا کو بڑی حد تک پر کیا۔ میں کئی عالمی سفروں میں ان کے ہم رکاب تھا، وہ محفلوں پر چھا جاتے۔ ان کی موجودگی میں بڑے بڑے جید اہل علم کے چراغ نہ جل پاتے ان کی گفتگو کے دوران ہوائیں تھم جاتیں۔
پاکستان سے ہر سال کتنے ہی ہم جیسے کارکنان ان کے توسط سے حج و عمرہ کا ویزا حاصل کرلیتے۔ سعودی سفارت خانے سے مجاملہ کے ویزا کا حصول ایک مشکل امر ہے لیکن وہ سعی پیہم اور رابطہ ٔ مسلسل سے یہ مشکل مرحلہ بھی طے کر لیتے۔ عبدالغفار عزیزؒ اسلامی تحریکوں کے درمیان رابطے کا پل تھے۔ انہیں ہر کوئی جانتا تھا۔ ہر کوئی ان کی عزت کرتا تھا۔ ہر دل میں ان کا احترام تھا۔ میں نے دنیا بھر میں اسلامی تحریکوں کے رہنمائوں کو ان کا مداح اور ثنا خوان پایا وہ جہاں نہیں پہنچتے تھے، وہاں ہر کوئی ہم سے استاذ عبدالغفار عزیز ؒ کا حال پوچھتا۔ ان کے لیے ہدیہ سلام پیش کرتا۔ عبدالغفار عزیز کو کام کا سلیقہ آتا تھا۔ امور خارجہ کے کام آسان نہ تھے۔ ہمہ پہلو، ہمہ جہت، دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں سے رابطہ، دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اپنے حلقہ احباب کی نگرانی اور رہنمائی، جماعت اسلامی پاکستان کے موقف کو ہر اہم زبان میں ترجمہ کرنا، پھر مختلف ممالک کے سفارت کانوں سے رابطہ رکھنا۔ محترم امیر جماعت اسلامی سے ان سفیروں سے ملاقاتوں کی فکر کرنا، سوشل میڈیا کے ذریعہ عرب و عجم سے رابطے، حالات کے اتار چڑھائو پر نظر، تبدیلیوں سے محترم امیر جماعت اور جماعت اسلامی کی قیادت کو باخبر کرنا۔ پھر عربی لٹریچر کی اردو میں منتقلی کی فکر، سید مودودی ؒ کے لٹریچر کے تراجم کے پھیلائو پر مسلسل نظر، ہر اہم واقعہ پر ترجمان القرآن میں بہترین تحریر دینا، یہ ایک ادارہ جاتی کام ہے اور عبدالغفار عزیز ؒ فرد نہیں ادارہ تھے۔ میں قائدین جماعت کی خدمت میں اپنے دورہ سعودی عرب، ترکی، ملائیشیا وغیرہ کی رپورٹس پیش کرتا تو برادرم عبدالغفار عزیز ؒ کی حوصلہ افزائی کے کلمات ضرور پہنچتے۔ وہ دعوت و محبت کا مینار تھے۔ وہ اتحاد امت کے نقیب تھے، وہ مسئلہ فلسطین، کشمیر اور برما وغیرہ کے عالمی پشتیبان تھے۔ وہ اقامت دین کی جدوجہد کے لیے نوید سحر تھے وہ ظالم حکمرانوں کے ظلم کے شکار مظلوم کارکنوں کے لیے آوازہ ٔ حق تھے۔ بنگلا دیش میں جس طرح پھانسیوں کے پھندے سجے تھے وہ ان شہدائے اسلام کے لہو کے امین تھے۔ انہوں نے قاضی حسین احمد ؒ کے ساتھ مل کر ترکی، افغانستان اور سوڈان کی اسلامی تحریکوں کو توڑ پھوڑ سے بچانے کے لیے جدوجہد کی تھی۔ کیا کچھ لکھوں کہ عبدالغفارعزیز ؒ رکے تو چاند چلے تو ہوائوں جیسا تھا۔ وہ شخص دھوپ میں دیکھو تو چھائوں جیسا تھا۔