صحت پر سیاست کا کھیل

342

حکومت نے مریم نواز کو نیب بلا کر سوئی ہوئی ن لیگ کو جگایا یا میاں نوازشریف نے لندن میں چہل قدمی کرتے ہوئے تصویریں جاری کرکے سوئی ہوئی حکومت کو جگایا اس میں دو رائے ہو سکتی ہیں مگر اس میں کوئی ابہام نہیں کہ دونوں اب عالم خوابیدگی سے دوبارہ جاگ سے گئے ہیں۔ نوا زشریف نے ایک دو ٹیلی فون کرکے اپوزیشن جماعتوں کے باہمی اختلافات کم کرنے کی کوشش کی اور اس کے ساتھ ہی مریم نواز نے نیب کے آگے میدان سجایا۔ اس سے حکومت تو جاگ ہی گئی تھی مگر یوں لگا کہ یہ کوشش اصل میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کو جگانے کی کوشش تھی۔ جو کورونا بحران کے بعد کچھ خاموش اور غیر فعال سے تھے۔ ان کی جگہ پارلیمنٹ اور میڈیا میں کئی دوسرے سخت گیر اور اعتدال پسند راہنما گرج برس کر اپنی جماعت کے وجود کا احساس دلا رہے تھے۔ ایسے میں نواز شریف کے ٹیلی فون اور مریم نواز کی طرف سے نیب کے آگے طاقت کے مظاہرے کے بعد شہباز شریف کی خاموشی ختم ہوئی اور وہ کورونا کے خطرات کو جھٹکتے اور نظر انداز کرتے ہوئے دوبارہ فعال ہوتے نظر آئے۔ اپوزیشن جماعتوں کے درمیان اتحاد اور آل پارٹیز کانفرنس کا جو بھاری پتھر مولانا نے چوم کو چھوڑ دیا تھا اور انہوں نے دوبڑی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کو مائنس کرتے ہوئے ایک نیا اتحاد تشکیل دینے کا جو فیصلہ کیا تھا شہباز شریف کی فعالیت کے بعد اس سارے عمل کو بریک سی لگ گئی اور اپوزیشن کے درمیان رابطوں اور تعلقات کے دھاگے کو دوبارہ وہیں سے جوڑنے کا سلسلہ شروع ہوا جہاں سے یہ ٹوٹ گیا تھا۔
شہباز شریف کی سرگرمیوں میں رکاوٹ کورونا تھی یا اس کی کوئی اور وجہ یہ تو واضح نہیں ہوا مگر ان کی غیر فعالیت ایک سوالیہ نشان تھی۔ عمومی تاثر یہ تھا کہ ان کی قیادت کو گھر میں ہی چیلنج کا سامنا ہے۔ شہباز شریف کی فعالیت کے ساتھ حکومت بھی فعال ہوگئی اور اب حکومت میاں نوازشریف کی واپسی کے لیے اقدامات اُٹھا رہی ہے۔ یہاں تک کہ وزیر اعظم عمران خان نے بھی ایک اجلاس میں کہا کہ نوازشریف کی واپسی کے لیے تمام ذرائع بروئے کار لائے جائیں گے۔ اس سے پہلے ہی لندن میں پاکستانی ہائی کمشنرنے برطانوی حکومت کو خط لکھ کر میاں نواز شریف کی واپسی کا مطالبہ کیا تھا۔ حکومت اور مسلم لیگ ن دونوں ایک دوسرے پر نوازشریف کی صحت پر سیاست کرنے کا الزام عائد کررہے ہیں۔ حکومت کا الزام یہ ہے کہ ن لیگ نوازشریف کی صحت اور ان کی بیرون ملک رخصتی اور وہاں چہل قدمی سمیت ہر معاملے میں حکومت کو بے خبر بے اثر اور نااہل ثابت کرنا چاہتی ہے اور یہ بتانا چاہتی ہے کہ حکومت کی منشا ومرضی کے بغیر انہوں نے کسی اور بالادست طاقت سے معاملات طے کرکے نوازشریف کی بیرون ملک روانگی کو یقینی بنایا۔ جب ن لیگ یہ تاثر دیتی ہے تو اس سے لامحالہ حکومت کی اتھارٹی پر حرف آتا ہے اور اس کی انا کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ جس کے ردعمل میں حکومت نوازشریف کی واپسی کو موضوع بحث بناتی ہے۔ حکومت کے پاس اس حوالے سے ایک کارڈ مریم نوازکی پاکستان میں موجودگی ہے۔ حکومت نے مریم نواز کی لندن روانگی میں رکاوٹ ڈال کر انہیں ضمانت کے طور پر یہاں رکھنا چاہتی ہے اور مریم نواز کی ملک میں موجودگی کا سب سے زیادہ نقصان شہباز شریف کی سیاست کو ہوتا ہے جو اپنا نقش پوری طرح قائم نہیں کرسکتی۔ مریم نوا ز کا ایک ٹویٹ شہباز شریف کی سیاست کو زیر و پر پہنچا دیتا ہے۔ اس طرح حکومت ایک تیر سے کئی شکار کر رہی ہے۔
لندن میں میاں نوازشریف کی سرگرمیاں اور چہل قدمی اس بات کی نفی کرتی ہے کہ وہ صحت کے کسی فوری مسئلے کا سامنا کررہے ہیں۔ جب کہ خود حکومت نے نوازشریف کو باہر بھیجتے ہوئے کہا تھا کہ اگر ان کا بروقت علاج نہ ہوا تو کئی سنجیدہ مسائل پید ا ہو سکتے ہیں۔ اسی قسم کی رپورٹس پنجاب کے محکمہ صحت اور وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے بھی دی تھیں۔ یہی رپورٹس نوازشریف کی بیرون ملک روانگی کا جواز بنی تھیں۔ اب نوازشریف کی باہر سے آنے والی تصاویر اور سیاست کے نین نقش تراشنے کے لیے ان کے ٹیلی فون خود حکومت کے اس موقف کی نفی کرتے ہیں۔ اس لیے حکومت نوازشریف کی تصویر منظر عام پر آتے ہی جذباتی ہوجاتی ہے۔ اس تصویر میں حکومت کو اپنی بے بسی جھلکتی نظر آتی ہے۔
حکومت جس طرح نوازشریف کی واپسی کے لیے سرگرم ہو گئی ہے اس سے لگتا ہے کہ حکومت اور ن لیگ میں ایک خاموش معاہدہ کمزور پڑ رہا ہے۔ ابھی یہ بھی واضح نہیں کہ حکومت میاں نوازشریف کو واپس لانا بھی چاہتی ہے یا اس معاملے کو زندہ رکھنا چاہتی ہے۔ برطانیہ کی حکومت سیاسی شخصیات کی ان کے ملکوں کو واپسی پر کم ہی آمادہ ہوتی ہے۔ اگر معاملات کسی جرم اور کرپشن تک محدود ہوں تو برطانوی حکومت ایسے افراد کو متعلقہ ملکوں کو حوالگی میں لیت ولعل سے کام لے کر آخر کار یہ کڑوا گھونٹ پی لیتی ہے مگر جہاں کسی کیس میں سیاست کا عنصر بھی موجود ہو وہاں برطانوی حکومت آخری حد تک اپنے ’’مہمان‘‘ کا بھرپور دفاع کرتی ہے۔ الطاف حسین اس کی مثال ہیں جن کے جرائم کی کہانیوں سے ایک زمانہ واقف ہے مگر ان کے یہ سب جرائم ان کے سر پر تنی سیاست کی چادر میں چھپ گئے ہیں اور برطانیہ ان کو پاکستان واپس بھیجنے پر کبھی آمادہ نہیں ہوا۔ اس صورت حال میں لگتا یہ ہے کہ حکومت اور ن لیگ نوازشریف کی صحت کے ساتھ سیاست کھیلتے رہیں گے کیونکہ دونوں اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ اس طریقے سے وہ ایک دوسرے کو زچ کر رہے ہیں۔