پاک چین اعلامیہ سطور اور بین السطور

420

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور چینی وزیر خارجہ وونگ ژی کے درمیان چین کے شہر ہنان میں اہم نوعیت کے اسٹرٹیجک مذاکرات ہوئے ہیں۔ مذاکرات کے کئی ادوار ہوئے جس کے بعد باقاعدہ اعلامیہ جاری کیا گیا۔ اعلامیہ میں کہا گیا کہ دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ نے مشترکہ مفادات کے تحفظ، خطے میں امن وخوشحالی اور ترقی کو فروغ دینے کے لیے مل جل کر اقدامات اُٹھانے پر اتفاق کیا ہے۔ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ آزمائش کی ہر گھڑی میں ہماری شراکت داری مزید مضبوط ہوتی جائے گی۔ سی پیک فیز ٹو کے منصوبوں کی بروقت تکمیل کے لیے کوششیں تیز کریں گے اور یہ کہ مسئلہ کشمیر کو مذاکرات سے حل کیا جانا چاہیے۔ پاک چین وزرائے خارجہ کے مذاکرات کے ساتھ ہی چینی صدر شی جن پنگ نے صدر عارف علوی کے نام ایک آڈیو پیغام میں کہا ہے کہ پاکستان اور چین اچھے بھائی اور بہترین شراکت دار ہیں۔ سی پیک دونوں ملکوں کے درمیان خوش گوار تعلقات میں مزید مضبوطی اور اعتماد کا موجب ہوگا۔ چین کی طرف سے پاکستان کے لیے خوش گوار ہوائوں اور پیغامات کی آمد اب کوئی نئی بات نہیں کیونکہ دونوں ملکوں کی دوستی وقت اور آزمائش ومشکلات کی میزان پر تُل کر اٹوٹ اور لازول ثابت ہوئی ہے۔ چین نے پاکستان کو حالات کی دلدل کا شکار نہیں ہونے دیا تو پاکستان نے ترغیبات اور تحریصات کے باوجود شاہراہ دوستی پر چین کا ہاتھ نہیں چھوڑا۔ حاسدین اور ناقدین نے پوری کوشش کی کہ دونوں ملکوں کے راستے جدا ہوجائیں مگر دونوں نے بقائے باہمی کے اصول پر چل کر ان کوششوں کا ناکام بنایا۔ آج اس کا نتیجہ ہے کہ چین بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے تحت دنیا میں اپنے موجودگی کا ڈنکا بجا رہا ہے۔ پاکستان نے چین کی دہلیز پر مشکل کھڑی کرنے کی خواہش کو ناکام بنانے کی بھاری قیمت چکائی ہے۔ پاکستان کے لوگوں نے یہ قیمت اپنے لہو سے ادا کی ہے کیونکہ پاکستان میں حالیہ برسوں میں جاری دہشت گردی کا تعلق پاکستان کو چین کے قریب جانے اور گوادر بندرگاہ کے بروئے کار آنے سے روکنے سے تھا۔ پاکستان نے چین کی دوستی میں یہ سارے حالات خندہ پیشانی سے قبول کیے۔ چین نے بھی اس وقت پاکستان کو عملی اور اخلاقی سہار ا دیا جب عالمی سطح پر پاکستان کو دہشت گردوں کا مرکز ثابت کرنے کی مہم زوروں پر تھی اور اس مہم کا مقصد پاکستان کو دہشت گرد ریاست قرار دلوانا تھا۔ یہ امریکا بھارت اور اسرائیل کی مشترکہ مہم جسے یورپی ملکوں کی خاموش تائید حاصل تھی۔ اس موقع پر چین کی تنہا آواز عالمی ایوانوں میں بلند ہوتی اور جس کا لب لباب یہ ہوتا تھا کہ پاکستان خود دہشت گردی کا شکار ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قربانیاں دے رہا ہے اور ان قربانیوں کا اعتراف عالمی سطح پر کیا جانا چاہیے۔ چین کی یہ آواز تنہائی کا شکار پاکستان کے لیے ایک بڑا اخلاقی سہارا ہوتی تھی۔
گزشتہ دنوں وزیر اعظم عمران خان نے دوٹوک انداز میں کہا تھا کہ پاکستان کا مستقبل چین کے ساتھ جڑا ہے اور پاکستان چین کا ساتھ نہیں چھوڑے گا۔ وزیر اعظم کے اس لب ولہجے سے ان قوتوں کی موہوم امید بھی دم توڑ گئی جو پاکستان کو چین سے الگ کرکے بھارت کی قیادت اور امریکا کی سرپرستی والے بلاک کی طرف دھکیلنا چاہتے تھے۔ اس سے یہ بات واضح ہوگئی تھی کہ پاکستان کو ترقی اور استحکام کا سفر چین کے ساتھ مل کر طے کرنا ہے۔ دونوں ملکوں کی دوستی حال ہی میں اس وقت امتحان پر پوری اُتری جب سعودی عرب نے پاکستان میں رکھوائے گئے اپنے تین سو ملین ڈالرز میں سے ایک سو ملین ڈالر کی قسط کی واپسی کا تقاضا کیا۔ یہ پاکستان کے لیے ایک مشکل مقام تھا مگر چین پاکستان کی مدد کو دوڑا دوڑا آیا اور اس نے پاکستان کو ایک سو بلین ڈالر کی ادائیگی کی جس سے سعودی عرب کا تقاضا پورا کیا گیا۔ یہی نہیں چین نے پاکستان کو یہ رقم مختلف مدات میں خرچ کرنے کی خصوصی اجازت بھی دی۔ سعودی عرب کی رقم تو صرف زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کی غرض سے بینک میں پڑی تھی اس کے برعکس چین سے ملنے والی رقم مختلف ضروریات پوری کرنے کے لیے خرچ کی جا سکتی ہے۔ اس ماحول میں شاہ محمود قریشی کا دورہ ٔ چین خصوصی اہمیت کا حامل تھا۔ اس دورے میں لداخ، کشمیر اور کئی دیگر موضوعات زیر بحث آنا لازمی تھا اور مذاکرات کو جو مشترکہ اعلامیہ بھی سامنے آیا وہ کشمیر سمیت کئی اسڑٹیجک معاملات کے ذکر سے مزین ہے۔ دونوں وزرائے خارجہ کی ملاقات کی جو وڈیو کلپ سامنے آئی ہے اس میں دونوں بعد ازکورونا اسٹائل میں مصافحے کی جگہ کہنیاں ملا رہے ہیں اور دونوں کے چہرے کے تاثرات بہت خوش گوار ہیں۔ بھارتی میڈیا نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان چین سے بھاری ہتھیار اور ڈیفنس سسٹم رعایتی نرخوں پر خریدرہا ہے اور اس کا مقصد چین اور بھارت کے درمیان لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر کشیدگی بڑھتے ہی کنٹرول لائن پر دبائو بڑھانے کی دو محاذوں کی حکمت عملی سے ہے۔ بھارت کے این ڈی ٹی وی نے چین سے خرید ے جانے والے ہتھیاروں کی ایک طویل فہرست بھی نشر کی ہے۔ اگر بھارتی ذرائع ابلاغ کا یہ دعویٰ بھی درست ہے تو پھر وزرائے خارجہ ملاقات کے اعلامیہ کے بین السطور بھی پڑھنے اور سمجھنے کے لیے بہت کچھ ہے۔