قال اللہ تعالیٰ وقال رسول اللہ ﷺ

335

جب ظالموں کو ان کی معذرت کچھ بھی فائدہ نہ دے گی اور اْن پر لعنت پڑے گی اور بد ترین ٹھکانا اْن کے حصے میں آئے گا۔ آخر دیکھ لو کہ موسیٰؑ کی ہم نے رہنمائی کی اور بنی اسرائیل کو اس کتاب کا وارث بنا دیا۔ جو عقل و دانش رکھنے والوں کے لیے ہدایت و نصیحت تھی۔ پس اے نبیؐ، صبر کرو، اللہ کا وعدہ بر حق ہے، اپنے قصور کی معافی چاہو اور صبح و شام اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے رہو۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ کسی سند و حجت کے بغیر جو اْن کے پاس آئی ہو، اللہ کی آیات میں جھگڑے کر رہے ہیں اْن کے دلوں میں کبر بھرا ہوا ہے، مگر وہ اْس بڑائی کو پہنچنے والے نہیں ہیں جس کا وہ گھمنڈ رکھتے ہیں بس اللہ کی پناہ مانگ لو، وہ سب کچھ دیکھتا اور سنتا ہے۔ (سورۃ غافر:52تا56)
ایک بار نبی کریمؐ لوگوں میں بیٹھے ہوئے ان سے باتیں کر رہے تھے۔ اتنے میں ایک دیہاتی آپ کے پاس آیا اور پوچھنے لگا کہ قیامت کب آئے گی؟ آپؐ اپنی گفتگو میں مصروف رہے۔ بعض لوگ (جو مجلس میں تھے ) کہنے لگے آپؐ نے دیہاتی کی بات سنی لیکن پسند نہیں کی اور بعض کہنے لگے کہ نہیں بلکہ آپ نے اس کی بات سنی ہی نہیں۔ جب آپؐ اپنی باتیں پوری کر چکے تو میں سمجھتا ہوں کہ آپؐ نے یوں فرمایا وہ قیامت کے بارے میں پوچھنے والا کہاں گیا اس (دیہاتی) نے کہا (یا رسول اللہ!) میں موجود ہوں۔ آپؐ نے فرمایا کہ جب امانت (ایمانداری دنیا سے) اٹھ جائے تو قیامت قائم ہونے کا انتظار کر۔ اس نے کہا ایمانداری اٹھنے کا کیا مطلب ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ جب (حکومت کے کاروبار) نالائق لوگوں کو سونپ دیے جائیں تو قیامت کا انتظار کر۔ (بخاری)