کے الیکٹرک کا عفریت

529

کراچی شہر کو طرح طرح کے عذاب دیے گئے ہیں اور اس شہر کے صابر و شاکر لوگ تمام عذابوں کو جھیل جاتے ہیں۔ 35 برس اس شہر پر ایم کیو ایم مسلط رہی، شہریوں کو لوٹا، قتل کیا، ان ہی سے بھتے لیے ان ہی کے بچوں کو قتل کرکے بوریوں میں ڈالا۔ ان کے ٹکڑے کیے۔ ناحق سندھی مہاجر یا پنجابی پختون مہاجر جھگڑوں کی تہمت لی۔ ورنہ ایم کیو ایم کے ہاتھوں جتنے مہاجر قتل ہوئے اتنے تو کسی اور زبان بولنے والوں کو زخمی بھی نہیں کیا گیا بلکہ ان کے مقابلے میں وہ تعداد قابل ذکر بھی نہیں۔ لیکن کراچی سے انتقام لینے والوں کا کمال ہے کہ ایم کیو ایم اس شہر کی مسیحا، ہمدرد، نجات دہندہ سب کچھ قرار پائی اور اب بھی یہی نعرے لگتے ہیں کہ میئر تو اپنا ہونا چاہیے اور اپنا میئر بھی وہی کر رہا ہے جواپنے پچھلے میئر کرتے تھے۔ اب کراچی پر کے الیکٹرک مسلط ہے اور اس کے سرپرست بھی وہی لوگ ہیں جو ایم کیو ایم کو مسلط کرنے والے تھے۔ کے الیکٹرک کے آنے کے بعد کراچی کو بجلی کی فراہمی کا پورا نظام تلپٹ ہوگیا ہے۔ جب سے ادارے کی نجکاری ہوئی ہے جھوٹ ہی جھوٹ بولا جا رہا ہے۔ گزشتہ انتظامیہ بھی جھوٹ بولتی تھی اور آج تو کے الیکٹرک کا پورا کاروبار جھوٹ پر چل رہا ہے۔ جعلی اور تیز میٹر، تانبے کے تاروں کی جگہ المونیم کے ناقص تار، ریموٹ کنٹرولڈ میٹرز، غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ، لوڈشیڈنگ کو لوڈ مینجمنٹ کا نام دینا۔ ٹیلی فون کے ذریعے شکایت درج کرانے پر ایک ہی رٹا ہوا جواب مشین کے آٹو ریپلائی سسٹم سے ملتا ہے کہ آپ کے علاقے کی بجلی ٹیکنیکل فالٹ کی وجہ سے بند ہے۔ ہماری ٹیم مستعدی سے کام کر رہی ہے۔ جلد مسئلہ حل ہو جائے گا۔ دوبارہ یہی شکایت درج کرائو تو ایک ٹکٹ نمبر دیا جاتا ہے۔ اس کے ذریعے 118 پر رابطہ کرکے اپنے علاقے کی بجلی کی بحالی کے بارے میں سوالات کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے شرط ہے کہ صارف کا نمبر 118 سے مل جائے۔ کے الیکٹرک نے 118 کال سینٹر کے حوالے کیا ہوا ہے جہاں بیٹھے لوگ بھی مشین کی طرح کا جواب دیتے ہیں۔ انہیں بھی کچھ پتا نہیں ہوتا۔ ٹیلی فون ایس ایم ایس کے چارجز بھی صارف کو دینا پڑتے ہیں اور ٹیلی فون کال کا بل بھی صارف کے ذمے ہوتا ہے۔ دونوں کالز اور میسج سے حاصل ہونے والی رقم پی ٹی سی ایل اور کے الیکٹرک کے درمیان تقسیم ہوتی ہے۔ یعنی جھوٹ بولنے پر بھی کمائی ہے۔ جعلی بلنگ اور جو اربوں روپے کے الیکٹرک لوٹ چکا اس سے رقم نکلوانے کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا کیونکہ نیپرا کے الیکٹرک کی سرپرستی کرتا ہے۔ حکومت سندھ کو حصہ ملتا ہے یا کسی وجہ سے بے بس ہے۔ وفاقی حکومت کے کئی ارکان اسمبلی کو کے الیکٹرک کی نوازشات کا دبائو محسوس ہوتا ہے لیکن زبان بھی نہیں کھلتی۔ عدالتوں نے کے الیکٹرک کو جو جرمانے کیے ہیں یا جو احکامات دیے ہیں ان پر عملدرآمد کا کوئی ذمہ لے گا۔ اسے بھی سرپرستی ہی سمجھا جائے کہ ایک نرم سا حکم جاری کرکے شہریوں کو ان کی رقوم واپس دلوانے کا کام نہیں ہو سکتا۔ لیکن چونکہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اور اہم سیاسی پارٹیاں کے الیکٹرک سے فیض حاصل کر رہی ہیں اس لیے اس کی غلطیوں اور لوٹ مار پر کسی کی توجہ نہیں۔ تنہا حافظ نعیم الرحمن اور جماعت اسلامی اس کے خلاف میدان میں ہیں۔ یہاں تک کہ میڈیا بھی اس کے خلاف خبروں کو دبا کر رکھتا ہے۔ کرنٹ لگنے سے ہلاکتوں پر عدالت نے ادارے کو حکم دیا تھا کہ تمام کھمبوں پر ارتھ لگایا جائے۔ رپورٹیں تیار ہو گئیں کہ 70 فی صد کھمبوں پر ارتھ کا تار لگا دیا گیا ہے پھر بھی ہلاکتیں بڑھ گئیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جمعہ کے دن شدید بارش کے دوران بھی کے الیکٹرک والے مختلف علاقوں میں بجلی کی فراہمی معطل کرکے ارتھ کے تار لگانے میں مصروف تھے۔ کراچی کے شہری کے الیکٹرک کے ہاتھوں کثیر الجہتی عذاب میں مبتلا ہیں۔ اول تو بجلی بار بار کسی وجہ کے بغیر بند ہو جاتی ہے۔ فیڈر ٹرپ ہونا، تار ٹوٹنا، فراہمی میں رکاوٹ یا تعطل یہ سب محکمے کی نالائقی اور ناکامی ہے۔ کے الیکٹرک نے ایک دھیلے کی بجلی بھی نیشنل گرڈ میں نہیں ڈالی۔ وفاقی حکومت اس کو سبسڈی بھی 90 ارب تک دے چکی ہے۔ سوئی سدرن گیس کے اربوں کے واجبات کے باوجود اسے شہریوں کی سپلائی بند کر کے گیس دیتی ہے۔ سندھ حکومت مفت میں اراضی دے رہی ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی مہربانیاں یوں ہی تو نہیں ہوں گی۔ نیپرا، وفاق اور صوبائی حکومتوں، نیب، ایف آئی اے اور عدالتوں کے ماہرین سے یہ سوال بھی ہے کہ کے الیکٹرک سے بجلی کی فراہمی کا ایک ماہ کا ریکارڈ طلب کرلیں۔ صرف جون اور جولائی کا موازنہ کرلیں تو سارا فراڈ سامنے آجائے گا۔ جون تک کے الیکٹرک معمول کی لوڈشیڈنگ کر رہی تھی اور اوسطاً 90 سے 120 گھنٹے لوڈشیڈنگ ہو رہی تھی۔ اس کے معنی ایک ماہ میں پانچ چھ دن بجلی کی عدم فراہمی۔ پھر بارش اور گرمی کی وجہ سے لوڈشیڈنگ دگنی ہوگئی بلکہ اس سے بھی زیادہ کم از کم 250سو گھنٹے ماہانہ بجلی فراہم نہیں ہوئی گویا کم از کم 10 دن بجلی فراہم نہیں کی گئی لیکن پورے کراچی میں سب کے بل گزشتہ سے زیادہ آگئے۔ کیوں… کیا لوگ بجلی آنے کے بعد قمقمے جلاتے ہیں۔ خوامخواہ میں اے سی چلا کر اور ہر کمرے کے پنکھے کھول کر گھرسے چلے جاتے ہیں۔ کیا ہوتا ہے کہ ماہانہ دس بارہ دن کے برابر بجلی نہ دے کر بھی کے الیکٹرک کا بل ہر ماہ پہلے سے زیادہ ہی آتا ہے۔ کیوں… کسی کے پاس اس سوال کا جواب ہے۔ اب اگست میں تو پہلے ہی ہفتے میں ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے۔ 7 روزمیں بمشکل 2 بار ڈھائی دن بجلی کی فراہمی رہی ہے اور کے الیکٹرک کے سربراہ ڈھٹائی سے پریس کانفرنس میں کہہ رہے تھے کہ مسلسل 24گھنٹے بجلی کی فراہمی کی وجہ سے بل زیادہ آرہے ہیں۔ اس لیے لوگ پریشان ہو جاتے ہیں جبکہ اسی پریس کانفرنس میں انہوں نے اعتراف کیا تھا کہ ان علاقوں میں بھی لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے جو مستثنیٰ تھے اور جہاں سے مکمل بلنگ ادائیگی ہوتی ہے۔ اتنے بڑے بڑے جھوٹ بولنے والے ادارے کو لگام دینے والا کوئی نہیں؟؟