شہر پھر ڈوب گیا، دعوے جاری ہیں

606

کراچی کے عوام کے لیے شاید یہی کہانی دہرائی جاتی رہے گی کہ تیز بارش، بجلی غائب، سڑکیں تالاب بن گئیں۔ ہر طرف غلاظت اور تعفن، جدید ترین ٹیکنالوجی کی دعویدار کے الیکٹرک کے 7 سو فیڈر ٹرپ ہو گئے۔ 70 فیصد شہر تاریکی میں ڈوب گیا۔ ۱ٍنالوں کی صفائی کے دعوئوں کے باوجود کوئی فرق نہیں پڑا۔ نشینی علاقوں میں کئی کئی فت پانی کھڑا رہا۔ شہر کے وسط، پی ای سی ایچ ایس گلستان جوہر، نارتھ کراچی، سرجانی وغیرہ میں بھی پانی کھڑا رہا۔ بعض علاقوں میں سیلابی ریلے بھی آئے۔ انتظامیہ نے کچھ دیر مقابلہ کیا پھر پولیس اور کے ایم سی کا عملہ بھی لاپتا ہو گیا۔ ایسا اس لیے ہو رہا ہے کہ وفاق اور سندھ میں دو الگ الگ پارٹیوں کی حکومتیں ہیں اور دونوں ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کے لیے انسانی المیے کو بھی استعمال کر رہی ہیں۔ گزشتہ مہینوں میں عالمی وبا کے حوالے سے بھی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے دونوں حکومتیں انسانی جانوں سے کھیلتی رہیں۔ ایک بار پھر بارش اور پانی کے معاملے پر اہل کراچی کو تباہی کے حوالے کر دیا اور خود دونوں حکومتیں سیاست کر رہی ہیں۔ ایک دوسرے پر الزام لگائے جا رہے ہیں اور اہل کراچی ایک بار پھر بارش، اندھیرے اور علاقے ڈوبنے کے عذاب میں مبتلا ہو گئے۔ اب تو این ڈی ایم اے، فوج اور وفاقی و صوبائی حکومتیں سب متحرک تھے۔ لیکن کس کام میں؟ این ڈی ایم اے اور وفاق نے دعویٰ کیا کہ فوج کی نگرانی میں کراچی کے اہم نالوں کی صفائی ہو رہی ہے اور وزیر اعلیٰ نے ہنگامی حالات نافذ کرکے بلدیاتی عملے کو طلب کرلیا۔ حکومت سندھ کا سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ بھی فعال ہو گیا۔ لیکن بارش بھی بڑی ظالم ہے۔ سارے دعوے ایک ہی چھینٹ میں دھل گئے بہتے ہوئے ان ہی دعویداروں کے دروازوں پر کھڑے ہو گئے لیکن شرم و حیا اور کسی قسم کا اظہار ندامت ان لوگوں میں نہیں ہے اب بھی مقابلہ اور بیان بازی جاری ہے۔ این ڈی ایم اے نے تیزی سے نالوں کی صفائی کا دعویٰ کیا تو سندھ حکومت کے وزرا نے کہا کہ این ڈی ایم اے صرف تین نالوں کی صفائی کر رہی ہے۔ باقی 35 بڑے نالوں کی صفائی حکومت سندھ کر رہی ہے لیکن دونوں میں سے کوئی یہ بتائے کہ نالوں میں یہ لوگ کیا کر رہے تھے۔ جو کچھ کیا ہے وہ صفائی تو نہیں اس حوالے سے جس خدشے کا اظہار کیا گیا تھا وہ سچ ہوتا نظر آرہا ہے کہ نالوں کی صفائی کے نام پر کروڑوں روپے ٹھکانے لگانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے اور روپیہ ٹھکانے لگ گیا ہے نالے جوں کے توں ہیں۔ ہاں دکھانے کے لیے صدر میں اور شہر میں ایک دو جگہ نالے کھول کر گنداب سڑک پر ڈال دیا گیا ہے جس سے یہ پتا چلے کہ صفائی ہو رہی ہے۔ لیکن لمبی لمبی باتیں بنانے والے ذرا یہ تو بتائیں کہ ایک بڑے نالے کی صفائی میں عام طور پر کتنے دن لگتے ہیں۔ اس وقت کراچی میں چھوٹے بڑے 50 نالے موجود ہیں اور یہ تمام ہی بند ہیں یا اپنی گنجائش کے مطابق پانی کی نکاسی نہیں کر رہے۔ نالوں کی صفائی تو اپریل مئی میں ہونا چاہیے۔ ان دو ماہ میں یہ صفائی ہوتی تو جون سے سارے راستے صاف ہوتے۔ لیکن کئی نالوں پر تجاوزات اور بڑے بڑے لوگوں کا قبضہ ہے۔ شہر کے وسط میں آرٹس کونسل سے ملحق سرکاری عمارت کا کچھ حصہ نالے پر بنا ہوا ہے۔ ایک بڑے اخبار کی عمارت سے متصل نالہ ہے اور چندریگر روڈ سے آگے شاہین کمپلکس کے عقب سے بھی نالہ گزر رہا ہے۔ کہیں پارکنگ بنی ہائی ہے اور کہیں باقاعدہ عمارتیں۔ ان لوگوں اور اداروں کو تو کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اس لیے ایک دوسرے پر الزام تراشی کرکے یہ حکومتیں وقت گزاری کر رہی ہیں۔ جمعہ کے روز کی بارش میں بھی شہر کے کئی علاقوں میں لوگوں کے گھروں میں پانی داخل ہو گیا۔ الخدمت اور دیگر این جی اوز ہی امدادی کاموں میں مصروف ہیں۔ حکومتی مشینری اتنی طاقتور ہوتی ہے کہ اگر وہ چاہے تو شہر میں کہیں بھی لوگ پریشان نہ ہوں۔ اگر پانی کی نکاسی فوری طور پر ممکن نہ ہو تو شہریوں کو پانی سے نکالنا تو ممکن ہے۔ ایک ایک اعلیٰ افسر کے استعمال میں کم و بیش ایک کروڑ روپے کی گاڑیاں ہیں۔ اگر شہریوں سے کوئی ہمدردی ہے تو صرف کراچی میں سرکاری افسروں اور اداروں کے زیر استعمال ڈبل کیبن گاڑیاں جو اونچی بھی ہوتی ہیں اور ڈیزل والی ہونے کی وجہ سے آسانی سے بند نہیں ہوتیں ریسکیو کے لیے استعمال کی جا سکتی ہیں۔ کسی زمانے میں پاک بحریہ والے کراچی میں کشتیاں لے کر آجاتے تھے اور لوگوں کو نشیبی علاقوں سے نکال کر لے جاتے تھے۔ لیکن اب یہ کام بھی این جی اوز کرتی ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ بتا سکتے ہیں کہ ہنگامی حالات کے اعلان سے کیا ہوا۔ کیا نالے اس اعلان سے صاف ہو گئے؟ یا شہر کی اندرونی گلیوں کے گٹر صاف ہو گئے۔ ایم کیو ایم، اس کے سرپرستوں اور اب پیپلز پارٹی نے کراچی کا پورا انفرا اسٹرکچر تباہ کر کے رکھ دیا ہے اب اگر کوئی مخلص قیادت آ بھی گئی جسے اسٹبشلمنٹ آنے نہیں دیتیں۔ تو بھی کراچی کو بحالی کے ٹریک پر آنے میں پانچ سال لگیں گے۔ اگر یہی حالات رہے تو اگلے برسوں میں کراچی بارشوں کے دوران پورا ہی ڈوب جائے گا۔