نیا نقشہ دس لاکھ بھارتی فوج پاکستان میں

3858

پاکستانی حکومت نے 5 اگست کو مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈائون کا سال مکمل ہونے پر یوم استحصال منایا۔ ملک کی تمام اہم سیاسی جماعتوں نے جماعت اسلامی کی اپیل پر یوم سیاہ منایا اور قومی مشاورت کے اجلاس میں اس موقف کا اظہار کیا ہے کہ کشمیر کی آزادی کا واحد راستہ جہاد ہے۔ مشاورت کے میزبان امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کہا کہ مودی کے جنگی جرائم کو مزید مہلت دینا کروڑوں لوگوں کو آگ میں جھونکنے کے مترادف ہو گا۔ اس قومی مشاورت کی اہم بات یہ ہے کہ اس میں آزاد کشمیر کے صدر نے بھی خطاب کیا اور ان کا موقف بھی مشاورت کے دیگر شرکا کی طرح یہی تھا کہ آزادی کا روڈ میپ دیا جائے اور آزادی کا واحد راستہ جہاد ہے۔ یہی بات متحدہ جہاد کونسل کے سپریم کمانڈر سید صلاح الدین نے کہی ہے کہ غیر موثر احتجاج کے بجائے کشمیر کی آزادی کے لیے جہاد کا اعلان کیا جائے۔ یہ اعلان ظاہر ہے ریاست مدینہ کی دعویدار حکومت ہی کو کرنا ہے۔ لیکن یہ حکومت کہ حقیقی معنوں میں کاغذی کارروائیاں ہی کررہی ہے۔ اس سے نہایت سنجیدہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ کشمیر کی آزادی کا روڈ میپ دیا جائے اس نے نہایت ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کشمیر کا ایک نقشہ بنا کر اسے سرکاری نقشہ قرار دے دیا ہے۔ یہ نقشہ اقوام متحدہ بھیجنے اور اسے منظور کرانے کا عندیہ دیا ہے۔ اس نقشے میں مقبوضہ کشمیر کو پاکستان کا حصہ دکھایا گیا ہے۔ کشمیر پر پاکستانی حکمرانوں کی بے حسی اور بے بسی کی کہانی تو قوم 70 برس سے دیکھ رہی ہے۔ لیکن اب جو کچھ حکومت کررہی ہے اس پر تو سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ دنیا کی قوموں کی تاریخ میں اس قدر شرمندہ کرنے والا روپ کسی قوم کا اور حکمراں کا نہیں رہا جو ہمارے وقت کے نیازی کا ہے ۔ کبھی آدھے گھنٹے کی خاموشی ، کبھی ترانوں کا اجراء ، کبھی سڑکوں کے نام رکھنے کے فیصلے اور اب کاغذی کارروائی، ایک نقشہ جاری کر دیاگیا ۔ اقوام متحدہ اسے تسلیم کرے نہ کرے ،پاکستانی قوم کو تو اسے تسلیم کرنا چاہیے ۔ لیکن ہمیں یقین ہے کہ حکومت پاکستان خود اسے سرکاری نقشہ تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہو گی ۔ اگر وہ سرکاری نقشہ ہے تو اس نقشے کے مطابق مقبوضہ کشمیر پاکستان کا حصہ ہے تو وزیر اعظم عمران خان نیازی صاحب آپ کی ذمے داری ے کہ آپ اپنے ملک میں دس لاکھ بھارتی فوج کی موجودگی کا نوٹس لیں ۔ وزیر اعظم کے جاری کردہ سرکاری نقشے کے مطابق تو کشمیر پاکستان کا حصہ ہے ۔نیازی صاحب یہ نقشہ جاری کر کے خود پھنس گئے ہیں ۔ اب ان کی ذمے داری ہے کہ اپنے ملک سے غیر ملکی فوج کو نکالیں ۔ جہاد کا اعلان تو اب ان کا فرض اولین بن گیا ۔ پاک فوج کے ترجمان نے چند روز قبل اعلان کیا تھا کہ ہمیں اشتعال نہ دلایا جائے ورنہ انتہائی سخت اقدام کیا جائے گا ۔ اب پاکستان میں (نئے نقشے کے مطابق) دس لاکھ بھارتی فوجی موجود ہیں ۔ اس پر انہیں اشتعال میں تو آنا چاہیے ۔ وزیر اعظم پاک فوج اور پوری پارلیمنٹ کی ذمے داری ہے کہ اس غیر ملکی فوج کو اپنے ملک سے باہر نکالیں ۔ کیا ہمارے حکمرانوں میں یہ جرأت ہے کہ وہ کشمیر کی آزادی کے لیے کاغذی کارروائیوں سے آگے بڑھ کر کوئی عملی قدم اٹھائیں گے ۔ظاہر ہے ایسا نہیں ہے ۔ نہ ان میں جرأت ہے اور نہ اس کی صلاحیت ۔جو لوگ یہ کام کرسکتے تھے ہمارے حکمرانوں نے خود ہی ان کو ناراض کر رکھا ہے۔قبائلی علاقوں کے عوام کو تنگ کیا گیا انہیں گھروں سے نکالا گیا۔ ان پر عرصۂ حیات تنگ کیا گیا پھر بھی وہ حب الوطنی کا دم بھرتے ہیں ۔ انہیں توٍ غداروں کی طرح مارا گیا ۔ اسی طرح ملک میں کشمیر کے جہاد کے حوالے سے جو آواز اُٹھتی تھی انہیں بھی بزور قوت دبا دیا گیا ۔ پاکستانی حکمران ترانے بناتے ،نقشے بناتے اور بڑھکیں مارتے رہے اور مودی نے شہید بابری مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر کے لیے سنگ بنیاد رکھ دیا ۔ بھارت میں حکمران بی جے پی ہو یا کانگریس یامختلف جماعتوں کا اتحاد… کشمیر پر ان کی پالیسی ایک ہی ہوتی ہے کوئی دوسری جماعت اقتدار میں آ کر کشمیر کے بارے میں کوئی اور پالیسی اختیار نہیں کرے گی لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ پاکستانی حکمران کشمیر پر پالیسی بدلتے رہتے ہیں ۔جنرل پرویز تو کشمیر کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے پرانے فارمولے کو اپنا نیا فارمولا قرار دے کر سودا کرنا چاہتے تھے ۔ لیکن یہ اعزاز بھی نیازی کو حاصل ہوا ہے کہ نہایت ڈھٹائی سے کشمیر بھارت کے حوالے کر کے یہا ں کاغذی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ ایک اور بات قابل توجہ ہے کشمیر ہائی وے کا نام بدلنے کی ضرورت نہیں تھی ۔ کسی اور سڑک کا نام سرینگر ہائی وے رکھ دیتے ۔ حالانکہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ تاریخ کا فیصلہ ہے کہ کمزوری اور بزدلی کا مظاہرہ کرنے والوں کی اس دنیا میں کوئی جگہ نہیں ہے ۔