ہٹ وکٹ یا کاٹ بی ہائنڈ؟

476

کپتان عمران خان کی ایک دن میں دو وکٹیں گر گئیں۔ ظفر مرزا اور تانیہ عیدروس سے استعفا لے لیا گیا گو کہ حسب روایت ان معاونین خصوصی کا کہنا یہی ہے کہ انہوں نے دہری شہریت پر تنقید ہونے کی وجہ سے خود ہی استعفا دے دیا ہے تاہم واقفان حال کا دعویٰ ہے کہ ان پر جو الزامات تھے ان کے پیش نظر استعفا لیا گیا ہے۔ تانیہ عیدروس تو ابھی پاکستان کی سیاست میں زیادہ فعال نہیں ہوئی تھیں مگر انہوں نے ڈیجیٹل پاکستان فائونڈیشن کے نام سے اپنی کمپنی بنا رکھی تھی۔ وہ اس کا حساب نہیں دے سکیں لیکن اہم بات یہ ہے کہ ان کی کمپنی کے ڈائریکٹروں میں جہانگیر ترین کا نام بھی تھا جو چینی کے اسکینڈل میں ملوث اور پاکستان سے بھاگے ہوئے ہیں۔ تانیہ عیدروس کا کہنا ہے کہ کینیڈا میں پیدا ہونا ان کی خواہش نہیں تھی اور وہ پاکستان کی خدمت کے لیے آئی ہیں، یہ کام وہ کرتی رہیں گی۔ ان کے مقابلے میں معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا بہت زیادہ فعال تھے اور ان کی فعالیت ہر ٹی وی چینل پر نظر آتی تھی۔ ان پر بدعنوانی کے سنگین الزامات ہیں۔ انہیں بھارت سے ہنگامی صورتحال میں کام آنے والی دوائیں درآمد کرنے کی اجازت دی گئی تھی جن کی تعداد 15۔20 سے زیادہ نہیں مگر انہوں نے 400 سے زاید دوائیں درآمد کرنے کی اجازت دے دی۔ ان میں ایسی دوائیں بھی شامل ہیں جو پاکستان میں بنتی ہیں یا ان کا استعمال ہنگامی ضروریات میں نہیں ہوتا۔ ایک اطلاع تو یہ بھی ہے ان دوائوں میں جنسی طاقت کی دوائیں بھی شامل ہیں۔ ان پر یہ الزام بھی ہے کہ وہ مالی اور انتظامی سمریوں کی منظوری کے بغیر احکامات جاری کرتے رہے۔ وزیراعظم کی ناک کا بال ہونے کی وجہ سے اختیارات سے تجاوز کرنا ان کا حق تھا۔ ظفر مرزا کے بارے میں تحقیقات ہو رہی تھی اور انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ کیا نتیجہ نکل سکتا ہے۔ استعفا لینے کے بعد بھی ان کا کہنا ہے کہ ایمانداری اور محنت سے کام کیا، اطمینان ہے کہ ایسے وقت میں جا رہا ہوں جب کورونا کے پھیلائو میں کمی آرہی ہے۔ اس سے تو یہ ظاہر ہو رہا ہے جیسے انہی کی کوششوں سے کورونا کے مرض کے پھیلائو میں کمی آئی ہے حالانکہ یہی وہ صاحب ہیں جو پاکستان میں کورونا کے سنگین نتائج سے عوام کو خوف زدہ کرتے رہے۔ بہرحال، وہ عالمی ادارہ صحت سے آئے تھے، اپنا بریف کیس اٹھا کر وہیں چلے جائیں گے اور پاکستان کی تاریخ کے صفحات میں سے ایسے گم ہو جائیں گے جیسے درآمدہ وزیراعظم معین قریشی اور شوکت عزیز گم ہو گئے۔ باخبر افراد کا دعویٰ ہے کہ ابھی 5، 6 معاونین خصوصی کے استعفے اور آئیں گے۔ عمران خان وزیراعظم بننے سے پہلے ایسے درآمدی افراد پر بہت کڑی تنقید کرتے تھے کہ ایسے لوگوں کا جینا، مرنا پاکستان میں نہیں اور ان کا کوئی مفاد پاکستان سے وابستہ نہیں۔ انہوں نے ماضی میں جو کچھ کیا وزیراعظم بن کر اس کے خلاف ہی کام کیا اور اسے یو۔ٹرن قرار دے کر اس پر فخر کیا۔ ممکن ہے عید قربان کے بعد کابینہ میں مزید قربانیاں ہوں۔ عمران خان کی اپنی پارٹی کے لوگ یہ شکوہ کرتے ہیں کہ منتخب ارکان کے بجائے غیر منتخب اور درآمدی افراد کو اہم ذمے داریاں دے دی گئیں۔ ڈاکٹر ظفر مرزا کے بارے میں یہ خبر بھی ہے کہ انہوں نے صحت کے حوالے سے غیر تسلی بخش کارکردگی دکھائی اور کورونا سے متعلق ذمے داریاں ڈاکٹر فیصل سلطان نبھاتے رہے اور وہ ہی وزیراعظم کو زیر صدارت کورونا اجلاسوں میں شریک ہوتے رہے۔ ممکن ہے انہی کو ظفر مرزا کی جگہ ذمے داریاں سونپ دی جائیں۔ دریں اثنا عدالت عالیہ اسلام آباد کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کا فیصلہ سامنے آگیا ہے کہ دہری شہریت رکھنے والے محب وطن ہیں اور ان کی حب الوطنی پر شک نہیں کیا جا سکتا۔ اس فیصلے سے وزیراعظم عمران خان کو بڑی تقویت پہنچے گی اور ممکن ہے کہ وہ دہری شہریت رکھنے والے مزید افراد بھرتی کر لیں۔ اب دہری شہریت رکھنے والوں کو گھبرانے کی ضرورت نہیں، عدالت ان کی پشت پر ہے۔