این ایف سی ایوارڈ کا خاتمہ، نئی محاذ آرائی

477

توقعات کے مطابق وفاق اور صوبوں کی جنگ میں ملک کا نظام تباہ کرنے کے لیے وفاقی حکومت نے این ایف سی ایوارڈ ختم کرکے صوبائی فنانس کمیشن بنانے کی منظوری دے دی ہے۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد وزیر اطلاعات شبلی فراز نے بتایا کہ وفاقی کابینہ نے یہ فیصلہ کر لیا ہے اور پنشن فنڈ بھی تشکیل دیا جائے گا۔ پنشن فنڈ تشکیل دینے کا فیصلہ تو اچھا ہے لیکن این ایف سی ایوارڈ ختم کرنے کی کیا ہنگامی ضرورت پیش آگئی۔ یہ وہی این ایف سی ایوارڈ ہے جس کی منظوری پر پورے ملک کی جماعتیں متفق ہوئی تھیں۔ خصوصاً سندھ کی حکمران پارٹی بھی اس سے متفق تھی۔ ایسے متفقہ ایوارڈ کو اچانک ختم کرنے کا کوئی جواز نہیں نظر آتا۔ بس یہ نظر آتا ہے کہ وفاق کا 18 ویں ترمیم پربس نہیں چلا تو این ایف سی ایوارڈ ہی ختم کرنے کا راستہ اختیار کیا گیا۔ ابھی تو اس پر کام شروع ہو گا۔ صوبائی فنانس کمیشن بنائے جائیں گے لیکن اس فیصلے کے اثرات قومی یکجہتی پر ضرور پڑیں گے۔ ویسے تو وفاقی حکومت این ایف سی ایوارڈ کے مطابق صوبوں کو ان کا حصہ دینے میں پہلے ہی لیت و لعل کرتی رہی ہے۔ اب جوں ہی فنانس کمیشن قائم کرنے کا عمل شروع ہو گا سندھ اور بلوچستان کی ناراضی کا عمل شروع ہو گا۔ بلوچستان میں تو کئی پارٹیاں مل کر حکومت بناتی ہیں۔ اس لیے بڑے گروپوں کو نواز کر اور کچھ چھوٹے گروپوں کو ملا کر راضی کر لیا جائے گا لیکن سندھ اور وفاق کے لیے یہ ایک نیا محاذ ہوگا اب تک لاک ڈائون کے حوالے سے دونوں میں ٹھنی ہوئی تھی اب زیادہ سنگین معاملہ ہوگا۔ صوبائی حکومت کو سندھ کارڈ کھیلنے میں آسانی ہوگی۔ یہ خدشات اس لیے ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ ہمارے ملک کے حکمران عوام کے فائدے کے لیے قوانین نہیں بناتے یا ان میں ترامیم نہیں کرتے۔ بلکہ وہ اپنے مفادات کے لیے فیصلے کرتے ہیں۔ اب صوبائی فنانس کمیشن کیسے بنے گا۔ این ایف سی ایوارڈ ختم کرنا آئینی طور پر ممکن بھی ہے یا نہیں یہ ساری باتیں سوچ کر ہی شبلی فراز نے اس فیصلے کا اعلان کیا ہوگا۔ بدھ کے روز ہی سندھ حکومت نے شکوہ کیا ہے کہ وفاق کو ہم نے توانائی کے 78 منصوبے بنا کر دیے تھے اس نے صرف 21 کو شامل کیا ہے۔ صوبوں کے معاملات سے بے اعتنائی کا یہ عالم ہو تو این ایف سی ایوارڈ بنایا جائے یا صوبائی فنانس کمیشن، صوبوں کو کچھ نہیں ملے گا۔ اس جھگڑے سے وفاق کو بھی کچھ نہیں ملے گا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کوئی قوت مرکزی حکومت اور صوبائی حکومت کو بھی تنازعات بڑھانے پر اکساتی رہتی ہے۔ اگرچہ اس امر کا خدشہ نہیں ہے کہ سیاسی نظام کی بساط لپیٹ کر فوج خود ہی اقتدار میں آجائے لیکن خرابیاں تو بہرحال بڑھیں گی۔ غیر سیاسی قوتوں کا عمل دخل تو بڑھے گا۔ دونوں جانب کوئی سمجھدار سیاستدان ہے کہ نہیں۔ ویسے جو کچھ ہو رہا ہے وہ پہلے سے جاری اقدامات کا تسلسل ہے۔ لاک ڈائون پر تصادم کے ذریعے سندھ نے وفاق کو ٹیکس کی مد میں بھاری نقصان پہنچایا۔ اب وفاق کی باری ہے وہ ہاتھ مارے گا۔ گندم کے مسئلے پر بھی وفاق اور سندھ آمنے سامنے ہیں۔ سندھ حکومت کو اس امر کا اچھی طرح اندازہ ہوگا کہ وفاق صرف فنڈز کے چکر میں ہے کیونکہ سندھ حکومت نے گزشتہ پانچ چھ برسوں میں کراچی کے مالدار محکموں پر قبضہ کیا۔ کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی بنایا تاکہ مکمل کنٹرول اس کے پاس آجائے۔ واٹر بورڈ کا کنٹرول اصولاً بلدیہ کراچی کے پاس ہونا چاہیے لیکن اسے صوبائی حکومت نے اپنے قبضے میں لے رکھا ہے۔ درجنوں محکموں کو سندھ اسمبلی کی قراردادوں کے ذریعے قبضے میں لیا اور کئی کو بلدیہ کے ذریعے ہی حاصل کر لیا۔ یہ اور بات ہے کہ بلدیہ کے ٹھیکیدار ایم کیو ایم والے اب مطالبے کر رہے ہیں کہ کراچی کو جینے دو۔ کراچی کا گلا گھونٹ کر ایم کیو ایم اب اسے جینے دو کا مطالبہ کر رہی ہے۔ یہی کام اب سندھ کے ساتھ کیا جا رہا ہے تو سندھ کی حکومت آسانی سے سندھ کارڈ کھیلے گی اور یہ نعرہ لگائے گی کہ سندھ کو جینے دو۔ صوبہ کے ھقوق پر ڈاکا نامنظور۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ جس وفاقی حکومت کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ آج گئی کہ کل وہ لمبی لمبی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ ہر روز کوئی نہ کوئی وزیر یا اتحادی ناراض ہو جاتا ہے۔ آپس میں پارٹی لیڈروں کی نہیں بن رہی اور چلے ہیں صوبوں سے لڑنے۔ یہ لوگ بھارت سے لڑنے کب نکلیں گے یا صرف پارٹی مفادات اور مالی مفادات کی جنگ لڑتے رہیں گے۔