عمرانی ریاست مدینہ میں عوام کا حال

574

کیا یہ ریاست مدینہ ہے؟ جس کے حکمران یہ سوچ کر لرزتے تھے کہ فرات کے کنارے کتا یا بکری کا بچہ بھی بھوک سے مر گیا تو میری گرفت ہوگی۔ جو کہتے تھے کہ میں شریعت پر چلوں تو میری پیروی کرو اور اس سے ہٹ جائوں تو مجھے گھسیٹ کر منصب سے ہٹا دو۔ پاکستان آئینی طور پر اسلامی جمہوریہ ہے۔ اب 2 برس سے حکمران عمران خان کا دعویٰ ہے کہ پاکستان ریاست مدینہ ہے۔ لیکن اس ریاست میں لوگوں سے روزگار چھینا جا رہا ہے۔ چھت چھینی جا رہی ہے۔ ان کو پینے کا صاف پانی نہیں مل رہا۔ کھانے کو آٹا، چینی، دودھ، سبزی، پھل نہیں مل رہے۔ دوائوں میں ملاوٹ، دودھ میں ملاوٹ خوراک میں ملاوٹ… یہ کیسے ممکن ہے کہ بجلی کے بل رکشے کے میٹر کی طرح تیزی سے بڑھتے رہیں اور محدود آمدنی والے لوگ بل ادا کرتے رہیں اور زندہ بھی رہ جائیں۔ یا تو وہ خودکشی کر لیں گے یا جرائم… دونوں راستے غلط ہیں۔ عمران خان کے دعوے کے مطابق نئی ریاست مدینہ میں بھی ہر سال کی طرح عیدین کے آنے سے قبل ہی دودھ، دہی، سبزی، پھل وغیرہ مہنگے ہو جاتے ہیں۔ اس مرتبہ بھی یہی ہوا ہے۔ عید الاضحیٰ کی آمد ہے اور دودھ کے نرخوں میں دس روپے فی لیٹر اضافہ ہو گیا۔ عوام کو اشیائے خورونوش اور خصوصاً دودھ جیسی بنیادی چیز آسان قیمت پر فراہم کرنا کس کی ذمے داری ہے۔ یہ روایت اور طریقہ برسوں پرانا ہے کہ جب کبھی دودھ کے نرخوں میں اضافے کا معاملہ ہوتا تھا کمشنر کراچی اجلاس طلب کرکے دودھ فروشوں کے مطالبات ان کی شکایات کو سن کر کسی نتیجے پر پہنچتے اور فیصلے کا اعلان ہو جاتا تھا لیکن موجودہ کمشنر صاحب اور دودھ فروشوں کے مذاکرات تقریباً سال ڈیڑھ سال سے چل رہے ہیں۔ ڈیری فارمرز کا کہنا ہے کہ دودھ کے نرخوں میں اضافے کا اصل سبب کمشنر کراچی ہیں۔ یہ کمشنر صاحب اجلاس بلاتے ہیں ہمارے مطالبات سنتے ہیں اور اگلی تاریخ دے دیتے ہیں پھر فیصلہ نہیں ہوتا۔ انہیں تو عدالت نے بھی دودھ کے نرخ مقرر کرنے کا حکم دیا تھا۔ دوسرا بڑا کام یہ ہو رہا ہے کہ ہماری پروڈکشن یا بھینسیں پالنے، دودھ دوہنے سے دکانوں تک پہنچانے کی جو لاگت ہے وہ اب بھی موجودہ قیمتوں سے زیادہ ہے ایک بار پھر حکومت خاموش ہے۔ مسئلہ کا حل کرنے کو تیار نہیں۔ نمائشی کارروائیاں کی جاتی ہیں۔ لیپا پوتی ہوتی ہے اور حکومتی کارکردگی کے لیے اخبارات کا پیٹ بھرنے کو خبر جاری کی جاتی ہے۔ آج اتنے چھاپے مارے اور جرمانہ عاید کیا گیا۔ لیکن عوام کو کیا ملا… ایک چھوٹے دکاندار کو پانچ ہزار اور بڑوں کو 25 ہزار پچاس ہزار کا جرمانہ کر دیا جاتا ہے۔ گاڑی میں بٹھا کر پولیس کہیں لے جاتی ہے معاملات طے ہونے پر چھوڑ دیا جاتا ہے اور جرمانے کی رقم دکاندار کے دکان پہنچنے سے قبل عوام سے وصول کی جا چکی ہوتی ہے۔ حکومت کی بھی واہ واہ اور دودھ فروشوں کی بھی چاندی اور عوام کی کمر پر مزید دُرّے۔ آج کل کراچی و حیدرآباد میں دودھ مہنگا مل رہا ہے لیکن پورے ملک کا یہی حال ہے۔ بجلی، پیٹرول، اشیائے خورونوش سب مہنگے ہیں۔ یہی کام حکومت کا ہوتا ہے کہ عوام کو ان کی ضرورت کی بنیادی اشیا آسانی سے فراہم کی جائیں۔ بجلی بھی ان میں سے ایک ہے لیکن بجلی بھی غائب ہے۔ پیٹرول کے بغیر زندگی کا پہیہ نہیں چلتا لیکن پیٹرولیم مافیا کے خلاف سخت ایکشن لینے کا اعلان اور گرفتاری کا عندیہ دے کر عمران خان نیازی نے ہتھیار ڈال دیے اور ایک رات میں 25 روپے فی لیٹر کا اضافہ کرکے چوروں کو مدد دی۔ پھر بھی کہا جاتا ہے کہ ہم معیشت مستحکم کر رہے ہیں۔ کس کی معیشت مستحکم ہو رہی ہے اس کا کسی کو پتا نہیں۔ کم ازکم عوام تو بنیادی ضرورت کی اشیا سے محروم ہوئے جا رہے ہیں۔ قیمت کا جہاں تک معاملہ ہے وہ صرف دودھ کے ساتھ نہیں ہے۔ حکومتی اہلکار بھینس کالونیوں، دودھ کے ٹرکوں، دکانداروں حتیٰ کہ گوالوں سے بھی بھتا لیتے ہیں۔ بڑی پھلوں کے آڑھتیوں، سبزی منڈی کے دکانداروں، سبزی پھلوں کے ٹرکوں اور پھر عام ٹھیلے والے سے بھی بھتے لیتے ہیں۔ یہ سلسلہ بلا تخصیص پورے پاکستان میں چلتا ہے۔ اگر حکومتی اہلکاروں کے بھتے ہی ختم کر دیے جائیں تو اشیا کی قیمتیں پچاس فیصد کم ہو جائیں گی۔ ریاست مدینہ میں کم از کم وہ نہیں ہوتا تھا جس کے انکشافات اب ہو رہے ہیں۔ سندھ کے وزیر سعید غنی نے جو انکشاف کیا ہے اس میں اہم ترین بات یہ ہے کہ پیپلز امن کمیٹی کو پی ٹی آئی میں شامل کرانے کا ٹارگٹ صدر عارف علوی، گورنر سندھ عمران اسماعیل اور علی زیدی کو دیا گیا تھا اور موجودہ صدر عارف علوی لیاری گینگ وار کے لوگوں کی دعوتیں کیا کرتے تھے۔ وزیراعظم اس معاملے کا بھی نوٹس لیں۔