جہاں ہندوستان وہاں جرم‘ جہاں جرم وہاں ہندوستان

1179

ہندوستان سے متعلق اصول بہت سیدھا سادا ہے اور وہ یہ کہ جہاں ہندوستان وہاں جرم اور جہاں جرم وہاں ہندوستان۔ کیا ایک انسان کی حیثیت سے کبھی آپ سوچ سکتے ہیں کہ آپ کسی تین چار سال کے بچے کے نانا کو ماریں گے اور پھر اس تین چار سالہ بچے کو اس کے نانا کی لاش پر بٹھا کر اس کی تصویر لیں گے؟۔ آپ انسان ہیں اس لیے آپ ایسا کرنا تو دور کی بات ایسا سوچ بھی نہیں سکتے مگر بھارتی فوج نے مقبوضہ کشمیر کے علاقے سوپور میں یہی کیا ہے۔ اس نے ایک بچپن ساٹھ سال کے نانا کو مار ڈالا اور پھر نانا کی لاش پر نواسے کو بٹھا کر اس کی تصویر کھینچی۔ واہ کیا انسانیت ہے؟ اسی لیے ہم نے عرض کیا ہے کہ ہندوستان کے سلسلے میں بنیادی اصول بالکل واضح ہے۔ جہاں ہندوستان ہے وہاں جرم ہے اور جہاں جرم ہے وہاں ہندوستان ہے۔
ہندو صرف اسلام اور مسلمانوں کے لیے ظالم نہیں وہ خود اپنے مذہب ہندوازم کے بھی غدار ہیں۔ اس کی ٹھوس مثال یہ ہے کہ ہندوئوں کی مقدس کتابوں میں لکھا ہے کہ خدا ایک ہے، اس کا کوئی دوسرا نہیں۔ خدا ایسا وجود ہے جس کی کوئی شبیہ نہیں، مگر ہندوئوں نے ایک سطح پر تین خدا یعنی برہما، وشنو اور شِو ایجاد کرلیے ہیں۔ دوسری سطح پر ہندو 33 کروڑ خدائوں کو مانتے ہیں۔ ان کے لیے کائنات اور زمین کی ہر چیز خدا ہے۔ سورج بھی خدا ہے، چاند بھی خدا ہے، درخت بھی خدا ہے، یہاں تک کہ ہندوستان میں آپ کو ایسے مندر بھی مل جائیں گے جہاں چوہوں کو پوجا جاتا ہے۔ ہندو چوہوں کو خدا مان کر ان کے آگے سر جھکاتے ہیں۔ ہندوئوں کی مقدس کتب کہتی ہیں کہ خدا کی کوئی شبیہ، کوئی مورتی نہیں ہے مگر ہندو اپنے خدائوں کی مورتیاں بنائے ہوئے ہیں۔ برہما کی مورتی، وشنو کی مورتی، شِو کی مورتی۔ یہ ہندوئوں کی مقدس کتابوں کے مطابق ایک بہت بڑا روحانی اور مذہبی جرم ہے۔ اسی لیے عرض کیا گیا ہندوستان کے سلسلے میں بنیادی اصول عیاں ہے۔ جہاں ہندوستان وہاں جرم اور جہاں جرم وہاں ہندوستان۔
ہندوئوں کی مقدس کتاب مہا بھارت میں صاف لکھا ہے کہ برہمن کا مطلب ہے متقی آدمی۔ مہا بھارت میں یہ بھی صاف لکھا ہے کہ ایک برہمن کے گھر شودر اور شودر کے گھر برہمن پیدا ہوسکتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ ہندو ازم میں ذات پات کا نظام اپنی اصل میں روحانی ہے نسلی نہیں۔ برہمن متقی شخص اور مقدس کتابوں کا مفسر اور ان کا رکھوالا ہے۔ شتریہ جنگجو ہے اور ریاست کا محافظ یا رکھوالا ہے۔ ویش وہ شخص ہے جس کو اللہ نے عقل معاش دی ہے۔ چناں چہ وہ صنعت و تجارت کو چلانے والا ہے۔ شودر وہ شخص ہے جو صرف جسمانی محنت کرسکتا ہے۔ اب یہ خدا کی عطا ہے کہ وہ شودر کے گھر برہمن کو پیدا کرسکتا ہے اور برہمن کو سزا دینے کے لیے اس کے گھر شودر کو پیدا کرسکتا ہے۔ مگر ہندوئوں نے اپنی مقدس کتاب مہا بھارت کے خلاف بھیانک جرم کرتے ہوئے اس کی تعلیمات کو بدل ڈالا ہے۔ انہوں نے ذات پات کے روحانی سلسلے کو نسلی حقیقت بنا کر کھڑا کردیا ہے۔ چناں چہ اب برہمن کے گھر پیدا ہونے والا ہر بچہ برہمن اور شودر کے گھر میں پیدا ہونے والا ہر بچہ شودر ہے۔ اس لیے ہندوستان کے سلسلے میں بنیادی اصول عیاں ہے۔ جہاں ہندوستان ہے وہاں جرم ہے اور جہاں جرم ہے وہاں ہندوستان ہے۔
ہندوئوں کی مقدس کتاب مہا بھارت اس عظیم الشان جنگ کا احوال ہے جو پانڈو اور کوروں کے درمیان لڑی گئی۔ اس جنگ میں پانچ پانڈو حق کی علامت ہیں اور سو پانڈو باطل کی علامت ہیں۔ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ پانڈو کوروں کے ساتھ جوا کھیلتے ہیں جوئے میں وہ اپنا سب کچھ ہار جاتے ہیں یہاں تک کہ اپنی ریاست بھی۔ اب پانڈو کے پاس صرف ایک چیز رہ جاتی ہے۔ ان کی مشترکہ بیوی دروپدی پانڈو اسے بھی دائو پر لگادیتے ہیں اور ہار جاتے ہیں۔ یہ تو ہندوازم کے ’’حق پرستوں‘‘ کا حال تھا۔ اب باطل پرستوں کا حال بھی سنیے۔ کورو نے دروپدی کو جیت لیا اور اسے بھری محفل میں طلب کیا گیا۔ یہاں پانڈو کی بے عزتی کرنے کے لیے بھری محفل میں درو پدی کی ساڑھی اُتارنے کی کوشش کی گئی۔ اس لیے یہ اصول دنیا کے ہر شخص کو یاد ہونا چاہیے کہ جہاں ہندوستان ہے وہاں جرم ہے اور جہاں جرم ہے وہاں ہندوستان ہے۔
جدید ہندوستان کے لیے گاندھی صرف ایک ’’سیاسی رہنما‘‘ نہیں تھے۔ ہندو انہیں مہاتما یا عظیم روح کہتے تھے۔ انہیں ’’باپو‘‘ یا باپ کہہ کر پکارتے تھے۔ ہندو گاندھی کی روحانیت کی وجہ سے ان کی پوجا کرتے تھے مگر گاندھی کے باطن کا یہ حال تھا کہ اسٹینلے ولپرٹ نے اپنی کتاب ’’Gandhi’s Passion: The LIfe And Legacy‘‘ میں لکھا ہے کہ گاندھی اپنی روحانیت ٹیسٹ کرنے کے لیے رات کو ننگی لڑکیوں کے ساتھ سوتے تھے اور اپنی بیوی کستوربہ بائی کو ’’ماں‘‘ کہا کرتے تھے۔ اسی لیے یہ اصول بیان کیا گیا ہے کہ جہاں ہندوستان ہے وہاں جرم ہے اور جہاں جرم ہے وہاں ہندوستان ہے۔ گاندھی دو قومی نظریے کے سخت خلاف تھے اور وہ ہندوئوں اور مسلمانوں کو ’’ایک قوم‘‘ سمجھتے تھے۔ مگر جب پنڈت نہرو کی بہن وجے لکشمی پنڈت نے ایک مسلمان سے شادی کی تو گاندھی سخت برہم ہوئے۔ انہوں نے وجے لکشمی پنڈت سے کہا کہ تجھے کروڑوں ہندوئوں میں ایک شخص بھی اس لائق نہ ملا جسے تم اپنا شوہر بنا سکو۔ انہوں نے وجے لکشمی پنڈت پر دبائو ڈالا اور اس کی شادی ختم کراکے دم لیا۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ جہاں ہندوستان ہے وہاں جرم ہے اور جہاں جرم ہے وہاں ہندوستان ہے۔ گاندھی دو قومی نظریے کے خلاف تھے اور ہندوئوں اور مسلمانوں کو ایک قوم سمجھتے تھے مگر مولانا محمد علی جوہر نے 1930ء کی ایک تقریر میں گاندھی سے مخاطب ہو کر کہا ہے کہ شدھی کی تحریک مسلمانوں کو زبردستی ہندو بنا رہی ہے مگر گاندھی جی اس تحریک کے خلاف کچھ نہیں کہتے۔ گاندھی دو قومی نظریے کے خلاف تھے اور ہندوئوں اور مسلمانوں کو ایک قوم سمجھتے تھے مگر انہوں نے ہندی کو فارسی اور اردو پر ترجیح دینا شروع کیا۔ یہاں تک کہ منشی پریم چند جیسا اردو کا افسانہ نگار گاندھی کے زیر اثر اردو کے بجائے ہندی میں افسانے لکھنے لگا۔ اس صورتِ حال کو دیکھ کر ہی سرسید نے مسلمانوں سے کہا تھا کہ کانگریس میں مت جائو اپنے سیاسی مفادات کے تحفظ کے لیے اپنی تنظیم بنائو۔ اسی لیے یہ بات گوش گزار کی گئی ہے کہ جہاں ہندوستان ہے وہاں جرم ہے اور جہاں جرم ہے وہاں ہندوستان ہے۔ گاندھی ہندوئوں کے ’’مہاتما‘‘ تھے۔ ان کے ’’باپ‘‘ تھے مگر انہیں ایک ہندو نتھو رام گوڈسے نے مار ڈالا۔ بیشک جہاں ہندوستان ہے وہاں جرم ہے اور جہاں جرم ہے وہاں ہندوستان ہے۔ اب بی جے پی ہندوستان میں اس خیال کو عام کرنے میں لگی ہوئی ہے کہ ہندوستان کا اصل ہیرو گاندھی نہیں نتھورام گوڈسے ہے۔ یہ جرم کے لیے ہندوستان کی رغبت کا اظہار ہے اس لیے اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ جہاں ہندوستان ہے وہاں جرم ہے اور جہاں جرم ہے وہاں ہندوستان ہے۔
نہرو گاندھی کے بعد ہندوستان کے دوسرے بڑے رہنما تھے ان کی ’’اخلاقیات‘‘ کا یہ عالم تھا کہ ایک جانب وہ لیڈی مائونٹ بیٹن کے ساتھ عشق فرما رہے تھے۔ دوسری جانب ایک ہندو عورت پر ڈورے ڈال رہے تھے۔ یہ نہرو تھے جو کشمیر کو اقوام متحدہ میں لے کر گئے اور خود کو اس بات کا پابند کیا کہ مسئلہ کشمیر حق رائے دہی کے ذریعے حل کرایا جائے گا مگر ہندوستان نہ نہرو کے زمانے میں اس حل پر آمادہ ہوا نہ آج اس حل پر آمادہ ہے۔ بلاشبہ جہاں ہندوستان ہے وہاں جرم ہے اور جہاں جرم ہے وہاں ہندوستان ہے۔
ہندوستان میں آزادی کے بعد سے اب تک پانچ ہزار سے زیادہ مسلم کش فسادات ہوچکے ہیں۔ ہندوئوں نے مسلمانوں کی معیشت تباہ کردی اور انہیں معاشی شودر بنادیا۔ ہندوئوں نے مسلمانوں پر روزگار کے دروازے بند کرکے مسلمانوں کی تعلیم کو تباہ کردیا۔ ہندوئوں نے بابری مسجد شہید کی اور کانگریس کا وزیراعظم نرسہما رائو بابری مسجد کی شہادت کے روز پورے دن سوتا رہا تا کہ کوئی اس سے بابری مسجد کے سلسلے میں رابطہ ہی نہ کرسکے۔ نریندر مودی نے گجرات ایجاد کیا اور گجرات میں تین ہزار سے زیادہ مسلمانوں کو مار ڈالا گیا۔ حاملہ مسلم عورتوں کے پیٹ تلوار سے پھاڑ ڈالے گئے۔ ایک انٹرویو میں جب نریندر مودی سے پوچھا گیا کہ کیا آپ کو مسلمانوں کے مرنے کا دُکھ ہوتا ہے تو انہوں نے فرمایا آپ کی گاڑی کے نیچے کتے کا پلا آجائے تو آپ کو دکھ تو ہوگا۔ یوپی کے وزیراعلیٰ آدتیہ ناتھ کی موجودگی میں بی جے پی کے ایک رہنما نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ اگر مسلمان عورتوں کو قبروں سے نکال کر Rape کرنا پڑے تو ایسا کرنا چاہیے۔ بھارت کشمیر میں ایک لاکھ مسلمانوں کو شہید کرچکا ہے۔ 12 ہزار مسلم خواتین Rape ہوچکی ہیں۔ یہاں تک کہ مسلمان اب بھارت کے اسپتالوں میں کورونا کا علاج تک نہیں کرا پارہے ہیں۔ بات یہ ہے کہ جہاں ہندوستان ہے وہاں جرم ہے اور جہاں جرم ہے وہاں ہندوستان ہے۔