وڈیو اسکینڈل، پورا نظام عدل مشکوک

521

آخر کار جج وڈیو اسکینڈل کے مرکزی کردار ارشد ملک کو برطرف کر دیا گیا۔ لاہور ہائی کورٹ کی انتظامی کمیٹی نے یہ فیصلہ ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی پر دیا ہے۔ لیکن کیا ایک جج کی برطرفی کافی ہے اور کیا اس پر ایک جج ہوتے ہوئے جھوٹ بولنے اور دبائو میں آ کر غلط فیصلے کرنے پر بطور مجرم مقدمہ چلا کر سزا نہیں دی جانی چاہیے تھی؟ عدالت میں جھوٹ بولنے یا جھوٹی گواہی دینے پر ایک عام آدمی کو تو سزا سنا دی جاتی ہے، جج ایسا کرے تو یہ انتہائی سنگین جرم ہے۔ اس مقدمے نے فیصلہ ہونے تک کئی پینترے بدلے ہیں۔ اب اس فیصلے کا اثر نواز شریف کو دی گئی سزا پر کیا پڑتا ہے، اس کے بارے میں ماہرین قانون کی آراء مختلف ہیں۔ تاہم مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف اور مریم نواز کا دعویٰ ہے کہ نواز شریف کی بے گناہی ثابت ہو گئی، سزا ختم کی جائے۔ دوسری طرف عمران خان کے ترجمانوں شبلی فراز، شہزاد اکبر اور شہباز گل نے حسب توقع یہی کہا ہے کہ ’’کرپشن کی سرپرستی کرنے والے قوم سے معافی مانگیں‘‘۔ کرپشن اور اس کی سرپرستی کرنے والے کوئی بھی ہوں ان کی معافی نہیں، انہیں سزا بھی ملنی چاہیے۔ لیکن ابھی یہ طے ہونا باقی ہے کہ زیادہ کرپشن کس دور میں ہوئی اور کیا موجودہ دورکرپشن سے پاک ہے؟ اس کا حساب آنے والی کوئی حکومت لے گی۔ جج ارشد ملک کے بارے میں جو فیصلہ آیا ہے اس نے عدلیہ کے پورے نظام کی شفافیت کی دھجیاں اڑا دی ہیں اور یہ سب سے بڑا نقصان ہے۔ ارشد ملک نے نواز شریف کے دور کے اس احتساب کی یاد دلا دی جس میں ایک جج کو ٹیلی فون پر ہدایات دی جاتی تھیں کہ بے نظیر کو سخت سزا دی جائے۔ کیا یہ مکافات عمل نہیں؟… احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کو 7 سال کی سزا سنائی تھی لیکن اسی جج نے فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف کو باعزت بری کر دیا۔ ان دو فیصلوں کے درمیان جو کچھ ہوا وہ ایک شرمناک داستان ہے جس نے پورے عدالتی نظام کو مشکوک بنا دیا ہے اور ججوں سے متعلق گھڑے گئے لطیفوں میں حقیقت کا رنگ بکھیر دیا ہے۔ یہ کوئی راز نہیں کہ جج حضرات بھی یا تو بک جاتے ہیں یا دبائو میں آ جاتے ہیں۔ سزا کے فیصلے کے بعد 6 جولائی 2019ء کو مسلم لیگ ن کی قیادت نے ارشد ملک کی وڈیوز جاری کیں جن کے مطابق سزا دبائو پر دی گئی۔ ان وڈیوز کا بڑا چرچا ہوا اور مسلم لیگ کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ ایسی کئی وڈیوز اور بھی ہیں۔ ارشد ملک نے ان وڈیوز کو جعلی قرار دیا۔ اگلے ہی دن رجسٹرار احتساب عدالت نے ارشد ملک کی تردید کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ ارشد ملک پر بالواسطہ یا بلا واسطہ کوئی دبائو نہیں تھا۔ رجسٹرار بھی عدالتی نظام کا حصہ ہوتا ہے۔ اس سے بھی پوچھا جانا چاہیے کہ اس نے کس بنا پر بیان صفائی دیا۔ مذکورہ وڈیو میں ارشد ملک خود تسلیم کر رہے ہیں کہ ’’نواز شریف کو سزا سنا کر میرا ضمیر ملامت کر رہا ہے اور ڈرائونے خواب آتے ہیں‘‘۔ جج ارشد ملک نے ایک شخص ناصر بٹ کو یہ بھی بتایا کہ نواز شریف پر کوئی الزام ہے نہ کوئی ثبوت۔ اس پر طرفہ تماشا یہ کہ کوئی کارروائی کرنے کے بجائے اسلام آباد کی احتساب عدالت نے ارشد ملک کی خدمات لاہور ہائیکورٹ کو واپس کر دیں۔ گویا پھر کھلی چھوٹ دے دی۔ جو ڈرائونے خواب ارشد ملک کو نظر آرہے تھے اب وہ پوری قوم دیکھے گی۔ ارشد ملک نے بطور جج جتنے بھی فیصلے کیے وہ سب مشکوک ہو گئے ہیں۔ اب تک عدلیہ عوام کی آخری امید ہے۔ امید کے یہ چراغ بھی جھلملانے لگے تو ہر طرف تاریکی ہی تاریکی ہوگی۔ عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس سب سے پہلے عدلیہ کا نظام درست کرنے پر توجہ دیں جس میں جانے کتنے ارشد ملک ہوں گے۔سرکاری ترجمانوں نے حق نمک ادا کرتے ہوئے جس ردعمل کا اظہار کیا ہے وہ بالکل بھی باعث حیرت نہیں۔ شبلی فراز معقول سمجھے جاتے ہیں مگر اب وہ عمران خان کے ترجمان ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ ’’جج ارشد ملک کی برطرفی اس دور کا ڈراپ سین ہے جب ججوں کو حواریوں کے ذریعے بلیک میل کیا جاتا تھا‘‘۔ یقیناً ماضی میں ایسا ہوا ہے لیکن شبلی فراز یہ بھول رہے ہیں کہ ارشد ملک کا معاملہ ان ہی کے دور حکومت میں ہوا ہے اور یہ ماضی کا نہیں حال کا واقعہ ہے۔ ارشد ملک نے 24 دسمبر 2018ء کو نواز شریف کو 7 سال قید کی سزا سنائی تھی اور دوسرے ریفرنس میں انہیں بری کیا گیا تھا۔ اس وقت حکومت نواز شریف کی نہیں، تحریک انصاف کی تھی۔ یہ بلیک میلنگ انہی کے دور میں ہوئی ہے۔ ایک گھسی پٹی دلیل یہ دی گئی ہے کہ ارشد ملک کی تعیناتی تو سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کی تھی۔ ہر معاملے میں ماضی کی حکومتوں پر الزام دھرنے کا سلسلہ کب تک چلتا رہے گا۔ عمران خان کی حکومت کب کام کرنا شروع کرے گی؟ بس نہیں چلا ورنہ کراچی میں طیارہ حادثے کا الزام بھی سابق حکومت پر دھر دیا جاتا۔ وہ تو طیارے کے مرحوم پائلٹ کا لائسنس جعلی نہیں نکلا ورنہ تو الزام لگ چکا ہوگا۔ ان ترجمانوں کا کہنا ہے کہ ارشد ملک قضیے میں دوسرے فریق مریم نواز اور ناصر بٹ ہیں، ان کو بھی سزا دی جائے۔ حکومت ان کے خلاف ریفرنس دائر کر دے۔