فیروز سنز۔ دواساز کمپنی کووڈ 19کی دوا بنائے گی

114

فاطمہ عزیز
خبر ہے کہ پاکستان بھی ایک ایسی اینٹی وائرس (وائرس کے خلاف لڑنے والی) دوا ریم ڈیسیور بنائے گا جو کہ اب تک کورونا وائرس کے خلاف لڑنے میں کافی مددگار ثابت ہوئی ہے۔ یہ اعلان جمعہ کے دن فیروز سنز کمپنی کے چیف ایگزیکٹو عثمان خانو وحید نے نیوز کانفرنس میں کیا جہاں ان کے ساتھ پاکستان کے ہیلتھ آفیسر ظفر مرزا بھی موجود تھے۔
پاکستان اب ان تین ممالک میں شامل ہے جہاں نا صرف یہ دوا بنائی جا رہی ہے بلکہ اس کی فروخت دوسرے ممالک کو بھی کی جائے گی ظفر مرزا کا کہنا ہے کہ یہ دوائی پاکستان سے تقریباً ایک سو ستائیس ممالک کو فراہم کی جائے گی۔
ریم ڈیسیور جو کہ پہلی بار ’’جی لیڈ سائنس‘‘ امریکا کی دوا ساز کمپنی نے بنائی تھی جس کا ہیڈ کوارٹر کیلی فورنیا میں واقع ہے یہ کمپنی زیادہ تر اینٹی وائرل دوائوں پر تحقیق کا کام کرتی ہے جو کہ HIV۔ ایڈز، ہیپاٹائٹس بی اور سی اور انفلیونزا جیسے مہلک بیماریوں کا علاج کر سکیں۔
ریم ڈیسیور ایک ایسی وائرس کے خلاف لڑنے والی دوا ہے جو کہ براڈ اسپکٹرم ہے مطلب کافی وائرس کے خلاف لڑ سکتی ہے۔ یہ 2019 تک ایک ایسی دوا تھی جو ایف ڈی اے (فوڈ اینڈ ڈرگ اتھارٹی) سے منظور شدہ نہیں تھی اور جانوروں پر ریسرچ کے مراحل سے گزر رہی تھی ۔ 2 مئی 2020 کو ایف ڈی اے نے اس دوا کے استعمال کی ایمرجنسی منظوری دے دی تا کہ کووڈ ۔19 کے خلاف استعمال کی جا سکے جس کے بعد اس دوا کے اثرات کو دیکھتے ہوئے دنیا بھر میں کووڈ۔ 19 کے خلاف استعمال ہونے والی سب سے زیادہ اثر رکھنے والی دوا ہے۔
کورونا وائرس سے اس وقت دنیا بھر میں تیس ہزار کے قریب لوگ مر چکے ہیں اس دوا کے مثبت اثرات کو دیکھتے ہوئے ’’جی لیڈ سائنس‘‘ نے یہ دوا دنیا بھر میں پہنچانے کے لیے پانچ بڑی دواساز کمپنیوں سے معاہدہ کیا ہے جن میں سے ایک فیروز سنز پاکستان میں واقع ہے جبکہ باقی چار کا معاہدہ انڈیا کے پاس ہے۔ جی لیڈ نے یہ شرط رکھی ہے کہ دوا کم داموں میں ہر ملک میں پہنچائی جائے ان ایک سو ستائیس ممالک میں زیادہ تر وہ غریب ممالک شامل ہیں جہاں صحت کی سہولیات میں کمی ہے اس معاہدے کے مطابق جی لیڈ فیروز سنز کو وہ ٹیکنالوجی بھی فراہم کرے گی جس سے دوا کی قیمت خود طے کریں گی اور اس دوا کو فراہم کرنے کے پیسے بھی ان پانچ کمپنیز سے اس وقت تک نہیں لیں گی جب تک ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن سے کووڈ۔ 19 سے پیدا ہونے والی ایمرجنسی دنیا بھر میں لاگو کی ہوئی ہے۔
اس وقت پاکستان میں تقریباً چالیس ہزار کورونا وائرس سے متاثرہ مریض سامنے آ چکے ہیں جن میں سے آٹھ سو انتقال کر چکےہیں لاک ڈائون جو کہ وباء کا پھیلائو روکنے کے لیے ملک بھر میں لاگو کیا گیا تھا اس سے ملک کی اکانومی میں کمی آئی ہے اور اسی کمی کو روکنے کے لیے لاک ڈائون کی شدت میں کمی کی گئی ہے۔