سب جھوٹ ہے

843

وزارت خزانہ نے انتباہ کیا ہے کہ کورونا وبا سے 30 لاکھ افراد بے روزگار ہو جائیں گے۔ ان بیروزگاروں میں اضافہ خود عمران خان کی حکومت کرنے جا رہی ہے۔ پاکستان اسٹیل کے 9 ہزار 300 ملازمین کو فارغ کیا جا رہا ہے۔ اسی اثنا میں پاکستان اسٹیل کے ملازمین کی ہلاکتوں کا آغاز بھی ہو گیا۔ گزشتہ جمعرات کو اقتصادی رابطہ کمیٹی کے فیصلے کے خلاف پاکستان اسٹیل کے کارکن اور کئی لیبر تنظیمیں و یونینیں پرامن احتجاج کر رہے تھے۔ سخت گرمی کے دوران پولیس اور رینجرز کی چڑھائی سے دو کارکن 50 سالہ محمد یونس بلوچ اور 45 سالہ سرفراز دل کا دورہ پڑنے سے جاں بحق ہو گئے۔ ایک اور کارکن 35 سالہ اعجاز سومرو کو بے ہوشی کے عالم میں اسپتال پہنچا دیا گیا۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی کے فیصلے کے مطابق پاکستان اسٹیل کے کارکنوں کو فارغ کیا جا رہا ہے جب کہ عمران خان اور ان کے اوپننگ بیٹسمین اسد عمر نے حزب اختلاف میں رہتے ہوئے دعوے کیے تھے کہ اگر تحریک انصاف حکومت میں آگئی تو پاکستان اسٹیل سے کسی کو نکالا نہیں جائے گا بلکہ اس کے حالات بہتر کیے جائیں گے اور ایسے ایڈمنسٹریٹرز متعین کیے جائیں گے جو اس کو خسارے سے نکالیں گے۔ اسد عمر نے تو یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ اگر کارکنوں کو نکالا گیا تو وہ ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے ورنہ ان کی یہ وڈیو چلا کر انہیں ہر جگہ شرمسار کیا جائے۔ لیکن ابھی تک تو وہ کارکنوں کے قریب بھی دکھائی نہیں دیے۔ عمران خان کا المیہ یہ ہے کہ وہ اس دور میں اقتدار میں آئے جب ٹی وی چینلز بہت مضبوط ہیں اور ماضی میں جس نے جو کچھ کہا اس کی وڈیوز محفوظ ہیں اور بار بار آئینہ دکھانے کے کام آتی ہیں۔ لیکن وزیراعظم عمران خان اور ان کے حواریوں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ شرمندہ ہونا نہیں جانتے، یوٹرن لینے کو ایک بڑا لیڈر ہونے کا وصف سمجھتے ہیں۔ جب عمران خان اپنے وعدوں اور دعووں کے خلاف عمل کرنے پر شرمندہ نہیں تو اسد عمر جیسے لوگوں کی کیا اوقات ہے۔ حماد اظہر جیسے لوگ تاویلات پیش کر رہے ہیں۔ پاکستان اسٹیل کی نجکاری آسان نہیں ہوگی اور اس میں اتنی قباحتیں ہیں کہ ایک اور معاملہ حکومت کے گلے پڑتا نظر آرہا ہے۔ پاکستان اسٹیل جنرل عبدالقیوم کی نگرانی میں 2008ء تک فائدے میں جا رہا تھا اور لوٹ مار کے باوجود نفع دے رہا تھا۔ اب اگر یہ اندھا کنواں اور سفید ہاتھی بن گیا ہے تو اس کی ذمے داری حکومتوں پر عاید ہوتی ہے۔ پاکستان اسٹیل اس ملک کا سرمایہ ہے اور اسلحہ سازی سمیت کوئی بھی صنعت لوہے کے بغیر نہیں چلتی۔ پاکستان اسٹیل بیچ کر دوسرے ممالک سے فولاد درآمد کرنا ملکی سالمیت سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ بیرونی ممالک کسی بھی وقت لوہا فراہم کرنے سے انکار کر سکتے ہیں جیسا کہ بارہا ہو چکا ہے۔ 71ء کی پاک بھارت جنگ میں امریکا نے دفاعی معاہدے کے باوجود پاکستان کو اسلحہ کی فراہمی روک دی تھی۔ ایف۔16 طیاروں کے پیسے لے کر طیارے فراہم نہیں کیے گئے۔ اب پاکستان اسٹیل کی نجکاری کے منصوبے ہیں لیکن اربوں روپے سالانہ کے خسارے میں اسے کون ہاتھ میں لے گا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے بڑے سینئر رہنما تاج حیدر گزشتہ جمعرات کو ٹی وی چینل پر فرما رہے تھے کہ پیپلز پارٹی اصولی طور پر نجکاری کے خلاف ہے۔ ان کی پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو ہی نے پاکستان میں قومیانے کا آغاز کیا تھا اور تمام چھوٹی بڑی صنعتیں، اسکول، کالج سب قومیا لیے تھے اور انہیں سرکاری ملازمین کے حوالے کرکے ان کا بیڑا غرق کر دیا تھا۔ جمعرات کو کارکنوں کے پرامن احتجاج پر پولیس اور رینجرز کی چڑھائی پر نینشل ٹریڈ یونین فیڈریشن کے ناصر منصور نے پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کے رویّے پر حیرت کا اظہار کیا ہے کہ ایک طرف تو وہ نجکاری کے خلاف اور کارکنوں کے ساتھ کھڑے ہونے کا دعویٰ کرتی ہے دوسری طرف پولیس اور رینجرز کو ہم پر چڑھا دیا۔ پی پی کی حکومت نے ہماری پیٹھ میں خنجر گھونپ دیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ وفاق سے لے کر سندھ حکومت تک سب جھوٹے ہیں۔ ان کے دعوے جھوٹ تھے۔