کیا سارے پرانے کیسز کھلیں گے؟

452

عدالت عظمیٰ نے جسٹس فائز عیسیٰ کیس میں استفسار کیا ہے کہ وفاق کو ججوں کی جائداد سے کیا مسئلہ ہے۔ کئی سوالات بیک وقت پوچھے گئے ہیں کہ اثاثہ جات یونٹ کیا ہے۔ شکایت صدر یا جوڈیشل کونسل کو کیوں نہیں بھیجی گئی۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ وفاق نے کس حیثیت میں معزز جج کے بارے میں معلومات اکٹھی کیں۔ عدلیہ کے سوالات اپنی جگہ درست لیکن اگر کسی جج کے بارے میں ایسی اطلاعات ملیں تو حکومت کو کیا کرنا چاہیے؟ عدالت عظمیٰ نے اسی جانب توجہ دلائی ہے کہ اس کی شکایت جوڈیشل کونسل کو یا صدر کو بھیجنی چاہیے تھی۔ خود ہی تحقیقات شروع نہیں کرنی چاہیے تھی۔ لیکن وفاق کا معاملہ عجیب ہے۔ اس کے وزیر قانون فروغ نسیم آرمی چیف جنرل باجوہ کو توسیع دلوانے کے لیے مستعفی ہو کر بطور وکیل عدالت میں پیش ہوئے۔ جنرل پرویز مشرف کی وکالت میں وفاق کے خلاف پیش ہونے کے لیے وزارت سے استعفیٰ دیا۔ اب پھر جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف پیش ہونے کے لیے وزارت سے مستعفی ہو گئے ہیں۔ یہ ڈرامے بازی کسی اور ملک میں ہوتی تو لوگ خوب خبر لیتے لیکن یہاں تو ٹی وی کے ذریعے ایسی فضا بنائی جاتی ہے جیسے پورے ملک میں صرف فروغ نسیم نے ایل ایل ایم کیا ہوا ہے اور باقی سارے وکیل جاہل ہیں۔ لیکن ان کے کیسز کو دیکھ کر اندازہ ہو سکتا ہے کہ وہ پی ٹی آئی میں کس کی سیاست کر رہے ہیں۔ عدالت عظمیٰ کے سوالات اپنی جگہ ہیں لیکن پی ٹی آئی کا رویہ انصاف اور ’قوانین سب کے لیے ایک‘ کے دعوے سے متصادم ہے۔ پی ٹی آئی کے خلاف غیر ملکی فنڈنگ کیس چل رہا ہے اور 70 پیشیوں اور اجلاسوں کے باوجود رپورٹ مرتب نہیں ہو سکی ہے۔ اصل خرابی یہ ہے کہ مدعی اکبر ایس بابر نے کہا ہے کہ مجھے حکمران جماعت کی جانب سے مسلسل دھمکیاں دی جا رہی ہیں کہ کیس واپس لو… یہ کیسا متضاد رویہ ہے۔ جو پارٹی ملک میں ہر ایک کے لیے یکساں قانون کا دعویٰ کرتی رہی ہے اس کے سربراہ کو اور پارٹی کو یہ زیب نہیں دیتا۔ وفاقی حکومت کا رویہ تو یہ ہے کہ اپنے خلاف معاملہ آیا ہے تو پرانے پرانے کیسز کھولنے کی بات کر رہی ہے۔ وفاقی کابینہ نے تمام شوگر ملز کے آڈٹ کا فیصلہ کر لیا۔ ارے ابھی تو پی ٹی آئی دور کے چینی چوروں کی رپورٹ آئی ہے، پھر اس کی فارنزک رپورٹ بھی آگئی پھر بھی کچھ نہیں ہوا تو 1985ء سے اب تک کے آڈٹ کا فیصلہ کرلیا۔ ایسا بھی کریں اور ضرور کریں لیکن ابھی جن لوگوں کے خلاف ثبوت آگئے ہیں ان کو تو سزا دیں ہمت ہو تو 1985ء سے پہلے کے چینی کے تمام اسکینڈلز کی رپورٹ سامنے لائیں۔ اسی طرح جسٹس فائز عیسیٰ کے معاملے کو صرف ان تک کیوں رکھا گیا یہ معاملہ بھی جسٹس منیر تک لے جائیں تاکہ ایک دفعہ ملک کے بہت سارے سیاسی مسائل حل ہو جائیں۔ لیکن کیا وفاقی حکومت جسٹس منیر کیس کھولے گی۔ کیا جنرل پرویز کے خلاف بغاوت، بے نظیر قتل کیس اور دیگر سنگین جرائم کے مقدمات کی اسی طرح پیروی کرے گی جس طرح شہباز شریف کے معاملے میں بہت زیادہ چست ہے۔ پی ٹی آئی کے وزیر اور پارٹی کو ذرا بھی حیا نہیں آئی کہ جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف نہایت نازیبا الفاظ ادا کیے گئے۔ اگر ایک وکیل کسی ثبوت کے بغیر یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ نے منی لانڈرنگ کی ہے تو پھر انصاف ہو چکا۔ یہی الزام تو پی ٹی آئی پر بھی ہے کہ اس نے منی لانڈرنگ کرکے غیر ملکی فنڈز کو الیکشن میں استعمال کیا۔ لوگ کہتے تھے کہ عمران خان کا ماضی بڑا داغدار ہے لیکن ان کے حامی کہتے تھے کہ اب تو تائب ہو گیا ہے لہٰذا ماضی کی زندگی کا ذکر نہیں چھیڑا جائے۔ جب کابینہ 1985ء تک کے آڈٹ کی رپورٹ نکلوانے کی بات کر رہی ہے تو عمران خان کی لندن اور امریکا کی زندگی کی تحقیقات بھی ہونی چاہیے۔ کیا پی ٹی آئی اور اس کے لیڈر اسے پسند کریں گے۔ ویسے تحقیقات تو اس کی بھی ہونی چاہیے اور وفاقی حکومت کی خواہش کے مطابق تمام شوگر ملز کا آڈٹ بھی ہونا چاہیے۔ لیکن اصول تو یہ کہتا ہے کہ پہلے تازہ رپورٹوں پر کارروائی کی جائے اس کے بعد پچھلے کیسز یا گڑے مردے بھی اکھاڑے جائیں۔ چلیے ایک مرتبہ پاکستان میں سارے گڑے مردے اکھاڑ ہی لیے جائیں اس سے یہ تو پتا چل جائے گا کہ کس سیاستدان کی اصلیت کیا ہے۔ افسوس ناک بات تو یہ ہے کہ عمران خان نواز شریف کے بارے میں کہتے ہیں کہ ملک کا بیڑا غرق کر کے باہر عیش کر رہے ہیں لیکن وہ اپنے دائیں بائیں نہیں دیکھتے ان کی کابینہ میں کون لوگ بیٹھے ہیں۔ نواز شریف کے، پیپلز پارٹی کے، جنرل پرویز یا ق لیگ کے اپنا ایک آدمی تھا وہ بھی کبھی ان تو کبھی آڈٹ ہو جاتاہے۔ ایسی پارٹی اور ایسی قیادت کو یہ بھی تو سوچنا چاہیے کہ نواز شریف نے ساری کرپشن صرف اسحٰق ڈار کے ذریعے تو نہیں کی ہوگی۔ آصف زرداری نے صرف قائم علیشاہ یا اومنی گروپ کی مدد سے تو کرپشن نہیں کی ہوگی۔ ان کی ٹیم میں جو لوگ ان پارٹیوں کے ہیں ان کو اندرون ملک عیش کیوں کرنے دے رہے ہیں۔ ان سے تو شریفوں اور زرداریوں کا حساب لیں۔