مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم میں اضافہ

983

مقبوضہ کشمیر میں بھارت کا ریاستی ظلم و ستم جاری ہے ۔ کوئی دن نہیں جاتا کہ مقبوضہ وادی جموں و کشمیر میں بھارتی فوج و پولیس کے ہاتھوں کوئی شہادت نہ ہوتی ہو ۔ پوری مقبوضہ وادی جموں و کشمیر کو بھارت نے فوجی چھاؤنی میں تبدیل کررکھا ہے ۔ اتنے چھوٹے سے علاقے میں بھارت کی نو لاکھ فوجی نفری تعینات ہے ۔ یعنی مقبوضہ کشمیر کا کوئی چپہ ایسا نہیں ہے جہاں پر بھارتی فوج موجود نہ ہو، یہ نفری بھارتی پولیس اور اس کے لاتعداد جاسوسوں کے علاوہ ہے ۔مقبوضہ وادی میں گزشتہ پانچ اگست سے مکمل لاک ڈاؤن ہے، کسی کو آزادانہ آنے اور جانے کی اجازت نہیں ہے اور ہر آنے جانے والے کا مکمل ریکارڈ رکھا جاتا ہے ۔ اس کے باوجود بھارتی پولیس و فوج روز سرچ آپریشن کا بہانہ کرتی ہے اور تلاشی کے بہانے نوجوانوں کو گرفتار کرکے بدترین تشدد کا نشانہ بناتی ہے ، کشمیری بچیوں کی منظم آبرو ریزی کی جاتی ہے اور ان کی قیمتی اشیاء کو لوٹ کر املاک کو آگ لگادی جاتی ہے ۔ مسلمانوں کے خلاف بھارتی مظالم کی یہ صورتحال صرف مقبوضہ کشمیر تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ پورے بھارت میں کچھ ایسی ہی صورتحال ہے ۔ تعلیمی اداروں میں مسلم طلبہ اس کا خاص نشانہ ہیں ۔ بی جے پی کی حکومت کے دوران گجرات کے فسادات اس بات کے گواہ ہیں کہ پورے بھارت میں مسلمانوں کی منظم نسل کشی کی جارہی ہے ۔ افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ بھارت کو اس منظم نسل کشی سے کوئی روکنے والا نہیں ہے ۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسے ادارے ایک طویل خط بھارتی حکمرانوں کو لکھ کر یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی ذمہ داری پوری ہوگئی ۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دیگر عالمی اداروں کا رویہ جنوبی سوڈان اور مشرقی تیمور میں یکسر مختلف تھا ۔ ان اداروں نے راتوں رات جنوبی سوڈان اور مشرقی تیمور میں اس طرح نئی ریاستیں کھڑی کردیں کہ وہاں کے باشندے بھی اس پر حیران رہ گئے مگر، میانمار، فلسطین اور بھارت میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم یا تو ان اداروںکو نظر ہی نہیں آتے اور اگر یہ مظالم حد سے بڑھ جائیں تو یہ محض ایک خط اسی حکمراں کو لکھ دیتے ہیں جو ان مظالم کا ذمہ دار ہے اور یوں پٹواری کی شکایت پٹواری سے ہی کردی جاتی ہے ۔ اس کے بعد ہر طرف ایک مجرمانہ خاموشی طاری ہوجاتی ہے ۔ بھارت کی ریشہ دوانیاں صرف یہیں تک محدود نہیں ہیں کہ وہ پاکستان کی شہ رگ کشمیر پر قبضہ جمائے بیٹھا ہے اور کشمیر میں رہنے والے عوام پر عرصہ حیات تنگ کیے ہوئے ہے بلکہ وہ ساری ہی حدو ں کو پار کرکے بھارت میں سارک معاہدے کے تحت زیر تعلیم طلبہ کو بھی ذہنی و جسمانی تشدد کا نشانہ بناتا ہے اور بھارت میں مقیم پاکستانی سفارتکاروں کو بھی ہراساں کرنا روز کے معمولات میں شامل ہے ۔ دو دن قبل ہی نئی دہلی میں پاکستانی سفارتخانے کے دو ارکان پر مہمل الزامات لگا کر انہیں ناپسندیدہ قرار دے کر بھارت چھوڑنے کے احکامات دے دیے گئے ہیں ۔ بھارت جو کچھ بھی کررہا ہے ، اس میں اچنبھے کی بھی کوئی بات اس لیے نہیں ہے کہ بھارتی قیادت پہلے دن سے ہی پنڈت چانکیہ کے فلسفے پر کاربند ہے ۔ یہ بھی قدرت کا اصول ہے کہ جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات ہے ۔ اس کا مظاہرہ بھارت کے ساتھ چین کے معاملات میں بھی دیکھا جاسکتا ہے ۔ چین نے قوت سے بھارت کو سبق سکھایا کہ وہ اپنی حد میں رہے ، چونکہ بھارت طاقت ہی زبان سمجھتا ہے ،ا س لیے اُسے چین کی یہ بات سمجھ میں آگئی اور اب وہ خاموش بیٹھا ہے ۔ پاکستان کے ساتھ صورتحال اس کے بالکل اُلٹ ہے ۔ پاکستان پہلے دن سے ہی نہ صرف خاموش ہے بلکہ پاکستانی حکمراں عملی طور پر پاکستان کو بھارت کی طفیلی ریاست بنانے پر تُلے بیٹھے ہیں جس کے نتیجے میں بھارتی بنیا روزبروز اپنے آپے سے باہر ہورہا ہے ۔ پاکستان کے حقیقی اور مجازی حکمرانوں کی اس بزدلانہ پالیسی کا خمیازہ پاکستانی عوام بھگت رہے ہیں کہ بھارت روز ہی کنٹرول لائن پر فائرنگ کرتا ہے جس کے نتیجے میں پاکستانی فوج کے ساتھ ساتھ کنٹرول لائن پر رہنے والے شہریوں کی قیمتی جانوں کا بھی نقصان ہوتا ہے ۔ اس کا نقصان کنٹرول لائن کے دوسری طرف رہنے والے کشمیری بھی بھگت رہے ہیں کہ بھارت نے پوری مقبوضہ وادی کو ایک وسیع جیل میں تبدیل کردیا ہے ۔ اس کا نقصان پورے بھارت کے مسلمان بھی اٹھارہے ہیں کہ ان کا شکار منظم طریقے سے کیا جارہا ہے اور کہیں سے انہیں کوئی مدد و اعانت حاصل نہیں ہے ۔ اگر پاکستان کے حقیقی اور مجازی حکمراں پہلے دن سے ہی بھارت کو دندان شکن جواب دینے کی پالیسی اختیار کرتے تو بھارت کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کی نہ تو ہمت ہوتی اور نہ ہی کشمیریوں کی جان و مال اور عزت و آبرو بھارتی اہلکاریوں پامال کرتے ۔ بہتر ہوگا کہ پاکستان کے حقیقی اور مجازی حکمراں اپنی اصل کشمیر پالیسی کا واضح اعلان کردیں تو اس کے نتیجے میں کشمیر کے مسلمانوں کو بھی اپنے مستقبل کا لائحہ عمل ترتیب دینے میں آسانی ہوجائے گی اور کم از کم وہ پاکستان کی مدد کے انتظار میں یوں جان سے تو نہ جائیں گے ۔