کراچی کے لاوارث شہری

345

کے الیکٹرک اور سوئی سدرن گیس جیسے اداروں کی من مانی دیکھ کر تو ایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ کراچی کے شہریوں کو جیسے سرکاری تحفظ میں ان ڈکیت اداروں کے حوالے کردیا گیا ہے کہ جیسے چاہے کراچی کے شہریوں سے تاوان وصول کرو ، کوئی پوچھنے والا تو دور کی بات ہے ، اگر کوئی احتجاج بھی کرے گا تو سرکار خود ہی ان شہریوں کا سر کچل دے گی ۔ جس دن سے کے ای ایس سی کی نجکاری کی گئی ہے ، اُس دن سے ہی کراچی کے شہریوں کی آزمائش شروع ہوگئی ہے ۔ نجکاری کے معاہدے میں شامل تھا کہ نئی انتظامیہ بجلی کی پیداواری استعداد بڑھائے گی ، بجلی کی فراہمی کے انتظامات کو درست کرے گی ،نقائص دور کرے اور بلاتعطل مناسب نرخوں پر بجلی کی فراہمی کو یقینی بنائے گی ۔ مگر حقیقت میں اس کے بالکل برعکس ہوا ۔ کے الیکٹرک کی انتظامیہ نے بجلی کی پیداواری استعداد میں اضافہ تو دور کی بات ہے ، موجود استعداد کے مطابق ہی بجلی پیدا کرنے سے انکار کردیا ہے ۔ کے الیکٹرک کی انتظامیہ کے پاس آسان سا فارمولا ہے کہ واپڈا سے مفت بجلی لو ، سوئی سدرن سے مفت گیس لو اور پی ایس او سے مفت فرنیس آئل لو اور اس سے بجلی پیدا کرکے انتہائی مہنگے داموں صارفین کو بجلی فروخت کردو ۔ اس کے علاوہ زاید بلنگ کا ہتھیار الگ ہے ۔ واپڈا، سوئی سدرن اور پی ایس او اگر اپنے بل مانگ لیں تو وفاقی حکومت میں موجود اپنے زرخرید کارندوں کے ذریعے معاملات لٹکا دو ۔ نیپرا میں موجو دزرخرید کارندوںکے ذریعے روز نرخوں میں اضافہ کردو جس کا اطلاق کئی ماہ پہلے سے کیا جائے اور ہر بل میں ان کے بقایا جات بھی وصول کرلو ۔ صارفین اگر شکایات لے کر آئیں تو انہیں اپنے اہلکاروں کے ذریعے تشدد کا نشانہ بناؤ اور ان کے بجلی کے کنکشن منقطع کرکے مزید بھاری بل بھیج دو ۔ صارفین کے تحفظ کے لیے عملی طور پر کہیں بھی کوئی فورم ہی موجود نہیں ہے ۔ شدید گرمی میں بجلی کی بلاجواز طویل لوڈ شیڈنگ معمولات میں شامل ہے ۔ کے الیکٹرک سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے بجلی کی کھپت کم ترین سطح پر ہے تو پھر کیوں لوڈ شیڈنگ جاری ہے ، کیوں پوری استعداد کے مطابق بجلی پیدا نہیں کی جارہی ہے ۔ کراچی کے شہری پہلے تو کے الیکٹرک کا ہی شکار تھے اب سوئی سدرن گیس کمپنی نے بھی کے الیکٹرک کا راستہ اختیار کرلیا ہے ۔ سوئی سدرن گیس کمپنی ایک زمانے میں اچھے نام سے مشہور تھی مگر اب اس کے عملے کے طور طریق بھی کے الیکٹرک والے ہی ہوگئے ہیں کہ نئے میٹر انتہائی تیز رفتار لگائے جارہے ہیں اور زاید بلنگ معمولات میں شامل ہوگئی ہے ۔ اس کے علاوہ گاہے گاہے سوئی سدرن نے بھی لوڈ شیڈنگ شروع کردی ہے جبکہ اس کا عملہ جو پہلے خوش اخلاقی کے لے معروف تھا ، اب وہ بھی صارفین کے ساتھ تشدد کرنے پر آمادہ رہتا ہے ۔ کراچی منی پاکستان ہے ، یہاں کے شہری وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے پوچھ رہے ہیں کہ ان کے مفادات کا تحفظ کس کی ذمہ داری ہے اور یہ ذمہ داری کون کب ادا کرے گا ۔