اسرائیل میں مخلوط حکومت اختلافات کا شکار

563

تل ابیب: اسرائیل میں مخلوط حکومت کی تقریب حلف برداری ناموں پر اختلاف کے باعث اتوار تک ملتوی کردی گئی۔

اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کے سیاسی حریف بینی گینز کےزیر قیادت اسرائیل میں مخلوط حکومت کو حلف اٹھانا تھا تاہم پر وزراء کے ناموں پر اتفاق رائے نہ ہونے کی وجہ حلف برداری کی تقریب ملتوی کردی گئی ۔

اسرائیل میں ایک سال کے دوران 3 بار انتخابات منعقد کرائے گئے تاہم بنیامین نیتن یاہو کی لیکوڈ پارٹی اور بینی گینز کی  بلیو اور وائٹ پارٹی میں ٹکر کا مقابلہ دیکھا گیا  لیکن دونوں جماعتوں  کے شراکت اقتدار کا ایک فارمولا طے پاگیا ، جس کے تحت پہلے 18 ماہ بنیامین نیتن یاہو وزیراعظم رہیں گےاور اس کےبعد بینی گینز وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالیں گے۔

مزید پڑھئیے:اسرائیل کاجولائی تک غرب اردن پر قبضے کا منصوبہ

نئی کابینہ میں اسرائیل کےسابق آرمی چیف گابی اشکنازی کو وزیرخارجہ نامزد کیا گیا تھا اوران کی جماعت کے سربراہ بینی گینز وزارت دفاع کا منصب اپنے پاس رکھیں گےجبکہ دوسری اہم وزارتیں لیکوڈ پارٹی کے حصے میں آئی ہیں۔

واضح رہے کہ اس عرصے میں نیتن یاہو کے خلاف بدعنوانیوں کے مقدمے کی سماعت جاری رہے گی،جس کے بعد  وہ اسرائیل کے پہلےبرسراقتدار وزیراعظم ہوں گے جس کے خلاف مقدمہ چلایا جائے گا۔

قومی اتحاد کی حکومت کے لیے طے شدہ معاہدے میں امریکا کے کردار کا بھی ذکر موجود ہے اور اس میں کہا گیا ہے کہ اس کی مشاورت ہی سے مستقبل میں (غربِ اردن سے متعلق) کوئی اقدام کیا جائے گا۔

مزید پڑھئیے:اسرائیلی اقدامات مذہبی جنگ کی طرف دھکیل رہے ہیں، عرب لیگ

قبل ازیں نیتن یاہو غربِ اردن میں واقع یہودی آبادکاروں کی بستیوں اور وادیِ اردن کو صہیونی ریاست میں ضم کرنے کیلئے یکم جولائی سے کابینہ میں بحث ومباحثہ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے،تاہم ماہرین کے اندازے کے مطابق فلسطینی سرزمین کو ہتھیانے کےمنصوبے پر عمل درآمد کیلیے جولائی کا وقت مقرر کیا ہے۔

یادرہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نےگزشتہ سال “سنچری ڈیل” کا نام نہاد امن منصوبہ پیش کیا تھا جس میں اسرائیل کو مغربی کنارے (غربِ اردن) میں قائم یہودی بستیوں اور دوسرے تزویراتی علاقوں کوضم کرنے کیلئے ہری جھنڈی دی تھی۔جس پر اسرائیلی وزیراعظم نے امریکی صدر کے اس منصوبے کو سراہا تھا تاہم سیاسی حریف بینی گینز نے اس کے بارے میں محتاط ردعمل کا اظہار کیا تھا۔

دوسری جانب فلسطینیوں کے علاوہ یورپی یونین نے امریکی صدر کے امن منصوبے پر کڑی تنقید کی تھی اور یہ کہا تھا کہ اس سے مشرقِ وسطی میں دیرینہ تنازع کے دو ریاستی حل کا دروازہ ہمیشہ کیلئے بند ہوجائےگا۔