فوجی شادی ہال کیوں چلاتے ہیں؟ جسٹس گلزار احمد

1507

کراچی: جسٹس گلزار احمد نے تجاوزات کے خاتمے کے مقدمے میں سیکرٹری دفاع کی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے حکم دیا ہے کہ  کراچی کے مہنگے کمرشل علاقے میں دفاعی مقاصد کے لیے فراہم کی گئی زمین پر قائم شادی ہالز فی الفور ہٹاے جائیں ۔

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں تجاوزات کیس سے متعلق جسٹس گلزار احمد نے بنچ کی سربراہی کرتے ہوئے کہا کہ آرمی کو کیا اختیار کہ سرکاری زمین کسی فرد کے حوالے کر دے ، آرمی کا شادی ہال چلانے کا کیا جواز بنتا ہے ۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ شادی ہال کے کرائے کے پیسے شہداء کے خاندانوں کو دیے جاتے ہیں، جس پر جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ہمیں کیا پتہ یہ پیسے کہاں جاتے ہیں۔

جسٹس گلزار احمد نےکہا کہ عدالت نے ملٹری لینڈ اور کنٹونمنٹس سے تجارتی سرگرمیاں ختم کرنے کےفیصلے کو برقرار رکھا ہے جبکہ متعلقہ حکام کو شادی ہالز اور تجارتی مراکز گرانے کے حکم پر فوری عملدرآمد کا حکم دیا ہے ۔

جسٹس گلزار کا کہنا تھا کہ عدالت مزید وقت نہیں دے سکتی یہ حکم 22 جنوری کا ہے، حکومت کام کرنا چاہے تو 5 منٹ لگتے ہیں، بلڈوزر پہنچ جاتے اور جگہ صاف ہوجاتی ہے۔

جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ ہمیں پتہ ہے کون کیا کررہا ہے یہ کسی ایک پلاٹ کا معاملہ نہیں، راشد منہاس کے علاقے میں فوجی زمین پر شادی ہال اور نیوی کے علاقے میں فیلکن مال بن گیا ہے ۔یہ سب ہٹانا پڑیں گے، فوجیوں کوکیا مسئلہ ہے کہ وہ شادی ہال بنائیں ۔

دوران سماعت وکیل رشید اے رضوی اور جسٹس گلزار احمد کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا ۔

وکیل نے کہا کہ آپ کسی کونہیں سن رہے ، جس پر  جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ کنٹونمنٹ بورڈ کو ہاؤسنگ سوسائٹی بنانے کا اختیار نہیں، ڈی ایچ اے غلط بنا ہے توغلط ہے۔

جسٹس گلزار احمد نے وکیل رشید رضوی سے کہا کہ میں توکہیں بھی چھپرا ڈال کررہ لوں گا، یہ ریٹائرڈ کرنل کون ہیں جو این او سی جاری کررہے ہیں، آرمی اتھارٹی سرکاری زمین کسی پرائیوٹ شخص کو کیسے دے سکتی ہے، جو دستاویزات پیش کررہے ہیں ان کی کوئی حیثیت نہیں ۔

وکیل رشید رضوی نے جسٹس گلزار احمد کو کہا کہ کور ہیڈ کوارٹر کو نوٹس بھیج دیں ،72 سالہ تاریخ میں تو کسی نے نہیں پوچھا ۔جس پر جسٹس گلزار احمد جواب دیا کہ “چلیں آج تاریخ بدلتے ہیں” ۔