کورونا: جدید دنیا کا جھوٹ

4772

جب سے یہ دنیا وجود میں آئی ہے، اسی دن سے جھوٹ، مکر و فریب کا کھیل شروع ہوگیا تھا۔ کچھ جھوٹ ایسے ہیں جن کا تعلق محض فرد تک ہی محدود رہتا ہے، اس لیے زیادہ لوگ اس سے متاثر نہیں ہوتے جبکہ بعض جھوٹ ہمہ گیریت لیے ہوئے ہوتے ہیں۔ بعض جھوٹ تو ایسے ہیں کہ ثابت ہونے کے بعد بھی کہ وہ جھوٹ تھے، ابھی تک عوام کی اکثریت ان پر ایمان کی حد تک یقین رکھتی ہے۔ جدید دنیا کا ایسا ہی ایک جھوٹ مشہور نفسیات داں فرائڈ نے دہری شخصیات کے حوالے سے بولا تھا۔ اس نے اپنی کتاب میں جو اسٹڈی کیس پیش کیا تھا، اس کا نام Sybil تھا، بعد میں پتا چلا کہ یہ سب کچھ صرف اور صرف فرائڈ کی ذہنی اختراع تھی اور حقیقت میں اس طرح کا کوئی کردار موجود ہی نہیں تھا۔ ایک عرصے تک جھوٹ کے مماثل کے لیے Sybil کا لفظ ہی استعمال کیا جاتا رہا۔ امریکی تاریخ جھوٹ سے بھری پڑی ہے، جس کا وہ اعتراف بھی کرتے ہیں۔ جدید دنیا کا جھوٹ ہمارے سامنے نائن الیون اور صدام حسین کے وسیع تباہی والے ہتھیار ہیں۔ یہ جھوٹ نہیں ہے کہ نائن الیون کے واقعے میں ٹوئن ٹاور اور ٹاور سیون تباہ ہوئے۔ مگر یہ جھوٹ تھا کہ انہیں مسافر بردار طیارے اغوا کرکے تباہ کیا گیا۔ بعد میں یہ ثابت ہوگیا کہ جن طیاروں کو ٹوئن ٹاور سے ٹکرایا گیا تھا، وہ مسافر بردار طیارے نہیں تھے بلکہ بڑے ڈرون تھے۔ یہ بھی ثابت ہوگیا کہ ٹریڈ ٹاور کی تینوں عمارتیں طیارے ٹکرانے سے لگنے والی آگ سے نہیں بلکہ پہلے سے فکس ڈائنامائٹ کے دھماکوں سے تباہ ہوئیں تھیں۔ چونکہ یہ مسافر بردار طیارے نہیں تھے، اس لیے یونائٹڈ ائر کا ایک بھی طیارہ اس کے فلیٹ سے کم نہیں ہوا، نہ ہی یونائٹڈ ائر نے کبھی اپنے تباہ شدہ طیاروں کا کوئی انشورنس حاصل کیا، اسی طرح کبھی بھی مسافروں کے نہ تو اصلی لواحقین سامنے آئے اور نہ ہی انہیں کبھی انشورنس کی رقم ادا کی گئی۔ حد تو یہ ہے کہ جنہیں ہائی جیکر قرار دیا گیا، ان میں سے پانچ ہائی جیکر اس سانحے کے بعد بھی زندہ تھے۔ کچھ یہی حال صدام حسین کے وسیع تباہی والے ہتھیاروں کی کہانی کا رہا۔
یہ جھوٹ ایسے ہی نہیں بولے گئے، ان کے پیچھے کثیر جہتی مقاصد تھے جو بخوبی حاصل کرلیے گئے۔ آپ صرف نائن الیون پر ہی غور کریں تو حیرت سے آنکھیں پھٹ جائیں گی کہ کس کس سطح کے لوگ اس جھوٹ کو پھیلا رہے تھے اور کس طرح پوری دنیا کا مین اسٹریم میڈیا اس کا خوف لوگوں پر طاری کررہا تھا۔ اگر نائن الیون نہ ہوتا تو نہ افغانستان میں امریکی فوجی گردی ہوتی، نہ ہی مشرق وسطیٰ کا یہ نقشہ ہوتا اور نہ ہی لیبیا، یمن و شام کی موجودہ صورتحال ہوتی۔ محض اس ایک جھوٹ نے دنیا کو ان لوگوں کی جھولی میں ڈال دیا جو دنیا پر قبضے کی سازشوں میں مصروف تھے۔ دیکھنے میں ایسا لگتا ہے کہ چین، امریکا اور روس کے مفادات ایک دوسرے کے خلاف ہیں۔ ایسا بالکل نہیں ہے۔ ان سارے ممالک میں ان ہی عالمی سازش کاروں کے ایجنٹ بیٹھے ہوئے ہیں جو دنیا پر شیطان کی حاکمیت چاہتے ہیں۔ (اس بارے میں تفصیل سے اپنی کتاب جنگوں کے سوداگر میں لکھ چکا ہوں۔ مذکورہ کتاب پی ڈی ایف پر طلب کی جاسکتی ہے)۔ یہی وجہ ہے کہ نائن الیون کے جھوٹ پر یہ سارے ممالک ہم زبان تھے۔
آج کی دنیا کا جھوٹ کورونا ہے۔ نائن الیون کی طرح یہ بات نہیں ہے کہ ٹوئن ٹاور تباہ نہیں ہوئے، ٹوئن ٹاور تباہ بھی ہوئے اور اس کے نتیجے میں لوگ مارے بھی گئے مگر یہ بات اس سے بھی زیادہ اہم ہے کہ اگر دنیا اسی وقت مان لیتی کہ ٹوئن ٹاور کی تباہی کی وجہ وہ نہیں ہے جو بتائی جارہی ہے تو آج دنیا پرامن ہوتی اور ریاست یوں فرد پر حاوی نہ ہوتی۔ کورونا میں بھی یہی صورتحال ہے۔ کورونا ضرور ایک حقیقت ہے، اس سے کچھ اموات بھی ہوئی ہیں مگر اس کا اثر وہ نہیں ہے جو بتایا جارہا ہے۔ اس کی آڑ میں لاک ڈاؤن کرکے، لوگوں کو خوفزدہ کرکے جو کچھ کیا جارہا ہے، اسے نرم سے نرم الفاظ میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ فرد کو ریاست کا غلام بنایا جارہا ہے۔ اب تو عالمی سازش کاروں کے اہم ترین آلہ کار عالمی ادارہ صحت نے بھی اس بات کو تسلیم کرلیا ہے کہ سوئیڈن نے لاک ڈاؤن نہ کرکے بہترین حکمت عملی اپنائی۔
کیا کورونا اتنا ہی خطرناک ہے کہ جس فرد کو یہ جرثومہ لگ جائے، وہ انتہائی دردناک موت کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس بارے میں کئی مرتبہ اعدادو شمار کے ساتھ لکھ چکا ہوں، کہ ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ اس کی ہلاکت آفرینی تو ابھی عام فلو جتنی بھی نہیں ہوئی ہے۔ دنیا بھر میں روز تقریباًایک لاکھ ساٹھ ہزار افراد موت کا شکار ہوتے ہیں (حوالہ https://www.worldometers.info/) اور اس برس کے جنوری تا اپریل، کی مدت میں مرنے والوں کی تعداد تقریباً دو کروڑ ہے۔ اس میںسے کورونا سے مرنے والوں کی تعداد 2 لاکھ 31 ہزار ہے۔ یہ تعداد بھی اس لیے متنازع ہے کہ دیگر امراض میں مرنے والوں کو بڑی تعداد میں کورونا کا مریض ظاہر کیا گیا۔ کورونا کی سنگینی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا میں مرنے کی بیس بڑی وجوہات میں کورونا شامل ہی نہیں ہے۔ مرنے والوں میں سب سے زیادہ شرح (15.51 فی صد) امراض قلب کی ہے جبکہ دوسرے نمبر پر (11.06 فی صد) پر فالج ہے۔ یہ فہرست https://deathmeters.info/ پر ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔ اس الگورتھم کو
https://www.worldlifeexpectancy.com/
live-world-death-totals پر بھی دیکھا جاسکتا ہے۔
یہ وجہ تو ہم جان چکے ہیں کہ کورونا کا مہیب جھوٹ کیوں گھڑا گیا ہے۔ اب اس کے نتائج آنے شروع ہوگئے ہیں۔ وائس آف امریکا کے ایک وڈیو کلپ میں دیکھا جاسکتا ہے کہ اٹلی میں لاک ڈاؤن کھلنے کے بعد ورکرز کو ایک ٹیگ بھی دیا گیا ہے۔ یہ ٹیگ ان کے یونیفارم کے ساتھ منسلک ہے اور ورکر کی ایک ایک حرکت کو نوٹ کررہا ہے اور انتظامیہ کو مطلع کررہا ہے۔ اگر کوئی ورکر دوسرے ورکر کے ساتھ مطلوبہ فاصلے پر نہیں ہے تو بھی الارم بج جاتا ہے اور اگر اپنے ساتھی ورکر کے ساتھ 15 سیکنڈ سے زاید بات کرلے تو بھی الارم بج جاتا ہے۔ یہ جھوٹ اب پوری دنیا میں آشکار ہوچکا ہے اسی لیے اس کے خلاف امریکا اور دیگر ممالک میں مظاہرے شروع ہوگئے ہیں اور ٹرمپ نے بھی اب مزید لاک ڈاؤن میں توسیع نہ کرنے کا اعلان کردیا ہے۔
پاکستان اور خصوصاً کراچی کے حالات دیکھیں تو عجیب سی بات محسوس ہوتی ہے کہ جن لوگوں کو اس جھوٹ کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے یعنی ڈاکٹروں کو، وہی اس کی حمایت کررہے ہیں۔ یہی ڈاکٹر کورونا سے ہونے والی موت کے جعلی سرٹیفکیٹ بانٹ رہے ہیں اور یہی ہر بخار کے مریض کو کورونا ہونے کی سند بھی دے رہے ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ موت چاہے کورونا سے ہو، فلو سے ہو یا کینسر سے کبھی بھی خوشگوار نہیں ہوتی تو پھر صرف کورونا کا خوف کیوں پھیلایا جارہا ہے۔ رہی میڈیا کی بات تو اس نے ایسے معاملات میں ہمیشہ سے پریسٹی ٹیوٹ کا کردار ہی ادا کیا ہے۔
سندھ حکومت کی بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ پیپلزپارٹی کا دوسرا نام ہی کرپشن ہے، این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم اے کی بھی بات سمجھ میں آتی ہے کہ ان کے سابقہ ریکارڈ بھی کرپشن کے بارے میں ہی بتاتے ہیں، ان لوگوں کی تو لاٹری لگ گئی ہے۔ انہیں نہ تو لوگوں کی زندگی سے دلچسپی ہے اور نہ انہیں موت سے بچانے میں۔ اگر ایسا ہوتا تو یہ سندھ میں صاف پانی مہیا کرکے یرقان، گیسٹرو، ڈائریا سے لوگوں کو مرنے سے بچا لیتے۔ ان امراض سے یومیہ مرنے والوں کی تعداد سیکڑوں میں ہے۔ صرف کراچی میں آوارہ کتوں کے کاٹنے کا یومیہ اوسط ڈیڑھ سو ہے۔ اگر لوگوں کی زندگی عزیز ہوتی تو اب تک آوارہ کتے ختم ہوچکے ہوتے۔ ملیریا اور ڈینگی کا سیزن شروع ہوا چاہتا ہے جس سے درجنوں افراد روز موت کا شکار ہوں گے، اگر شہریوں کا مفاد عزیز ہے تو مچھر مار اسپرے مہم شروع ہوجانی چاہیے تھی۔ مگر ایسا کچھ نہیں ہے۔ حکمرانوں کو کرپشن عزیز ہے تو ڈاکٹروں کو اپنے اسپتالوں کے لیے فنڈ اور دیگر مفادات۔ سمجھ لیجیے کہ کراچی کے لاک ڈاؤن کا مطلب پورے پاکستان کی معاشی شہ رگ دبا دینا ہے۔ یہ وہ کام ہے جو بھارت اور اسرائیل چاہتے ہوئے نہیں کرسکے تھے۔ کراچی کے لاک ڈاؤن کا مطلب کراچی میں بسنے والے تین کروڑ عوام کو معاشی طور پر قتل کردینا ہے۔ سوئیڈن کو پہلے سمجھ میں آگیا تھا اور اس نے لاک ڈاؤن ہی نہیں کیا۔ امریکا کے لوگوں کو بھی اب سمجھ میں آگیا ہے اور انہوں نے اس کے خلاف احتجاج شروع کردیا ہے، کراچی کے لوگوں کو کب سمجھ میں آئے گا۔
اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔