صرف مساجد پر ہی نزلہ کیوں گرایا جا رہا ہے

875

جرمنی سے خبر آئی ہے کہ وہاں مساجد میں نماز تراویح پڑھنے کی مشروط اجاز دے دی گئی ہے مگر اس کا اطلاق پانچ مئی سے ہوگا۔ دوسری طرف امریکا کہ ایک ماہر وبائیات نے کہا ہے کہ لاک ڈائون کرنے سے لوگوں کی قوت مدافعت متاثر ہو رہی ہے اگر لاک ڈائون ختم کر دیا جائے تو لوگ باہر نکل کر اپنے کام کاج میں مصروف ہوجائیں گے جس سے ان کی قوت مدافعت بحال کرنے میں مدد ملے گی اسی طرح کی اور بھی خبریں ہیں جو دنیا بھر سے گاہے گاہے آ رہی ہیں کہ اب بہت ہوچکی لاک ڈائون کو ختم ہونا چاہیے۔ لاک ڈائون کو پوری قوم نے دل و جان سے قبول کر لیا کہ حکومت وقت کے فیصلوں پر سر تسلیم خم کرنا عوام کا فرض ہے لیکن اس لاک ڈائون کا اطلاق ہوتے ہی کورونا مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہی دیکھنے میں آرہا ہے اور اموات بھی ہو رہی ہیں یہ اور بات ہے کہ اس پر بھی قوم تذبذب کا شکار ہے کیونکہ بعض اسپتالوں سے معلوم ہوا کہ ایک مریض دل گردے کینسر یا کسی اور مرض میں مبتلا تھا جس کا انتقال ہوگیا مگر اسپتال انتظامیہ لواحقین سے زبردستی اس کو کورونا کی موت ظاہر کرنے پر بضد نظر آئی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جب تک مساجد میں تالا بندی تھی کورونا مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتا رہا مگر ملک کے کسی بھی کونے سے یہ خبر نہیں آئی کہ مساجد سے اس وائرس نے پھیلنا شروع کیا اور مساجد 20 نکاتی پابندیوں کے بعد جزوی طور پر کھولی گئی ہیں تو بھی ایسی کوئی خبر نہیں آرہی پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سارا نزلہ مساجد پر ہی کیوں گرایا جا رہا ہے اور سندھ کے وزیراعلیٰ سے لیکر وزیر اعظم تک ہر روز مساجد کو بند کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں ایسی صورت میں شک کا جنم لینا بھی قدرتی امر ہے۔ اگر کورونا مساجد سے نکلتا تو امام مسجد خطیب موذن وغیرہ کو پہلے اپنی لپیٹ میں لیتا لیکن ایسا کچھ نہیں ہے۔ کاش ہمارے علمائے کرام حکمرانوں کو سمجھانے میں کامیاب ہوجاتے کہ مساجد کا اس بیماری کے پھیلائو میں کوئی ہاتھ نہیں اور ایمان اور خدا کے بھروسے پر کورونا کے خلاف جہاد کرتے تو قوم بھی ان کی تائید کرتی۔ مساجد بند کرنے کے لیے اسلامی دنیا اور دیگر ممالک کی مثالیں دی جا رہی ہیں کون نہیں جانتا کہ اسلامی ممالک پر حکمرانی کن لوگوں کی ہے اور وہ کن ممالک کے مرہون منت اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھے ہوئے ہیں اس لیے کہیں بھی مساجد ’’آزاد‘‘ نہیں ہیں جو اپنے فیصلے خود کرسکیں۔ یہاں محترم مفتی منیب الرحمن کے اس بیان کا حوالہ بھی غیر ضروری نہ ہوگا جس میں انہوں نے کہا کہ وہ نماز تراویح اور دیگر نمازیں ماہ رمضان میں گھر پر ہی ادا کریںگے کسی نے اس کی گہرائی میں جانے کی کوشش نہیں کی اصل وجہ یہ ہے کہ جس 20 نکاتی معاہدے پر انہوں نے دستخط کیے ہیں اس میں یہ شق بھی شامل ہے کہ پچاس سال سے زائد عمر کے افراد مسجد میں آنے سے گریز کریں اب اگر وہ خود مسجد جا کر نماز تراویح ادا کریں تو لوگوں کو باتیں بنانے کا موقع مل جاتا کہ خود تو عمل نہیں کر رہے مگر لوگوں سے عمل کرانے کا کہہ رہے ہیں اسی تناظر میں وہ خود کو گھر تک محدود رکھنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ یہ کہنا کہ اگر مساجد سے کورونا پھیلا تو دوبارہ پابندی لگا دیںگے یہ ایسی بات ہے جو دل میں چھپی ہوئی ہے کہ بس مساجد کو بند ہی کرنا ہے۔ پورے ملک میں لاکھوں مساجد ہیں اگر کہیں دو چار مساجد سے ایسے ثبوت مل بھی جائیں تو لاکھوں مساجد کی تالا بندی کا جواز کیسے تلاش کیا جا سکتا ہے یہ ایسے ہی ہے اگر اسکول کی کسی کلاس میں ایک دو بچے فیل ہوجائیں تو پوری کلاس ہی کو فیل قرار دے دیا جائے جبکہ اسی کلاس میں ایسے ہونہار طالب علم بھی موجود ہوں جو اپنے شہر کے بورڈ میں پہلی دوسری اور تیسری پوزیشن بھی حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں یہ عذر لنگ کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے۔ جس راستے سے کورونا اس ملک میں داخل ہوا وہ ایران کا بارڈر تافتان ہے جو تاحال کھلا ہے اس کے علاوہ ساری دنیا سے پاکستانی آرہے ہیں اور اپنے ساتھ کورونا کا مرض بھی لا رہے ہیں مگر ان کی آمد کو کسی نے نہ روکا بلکہ کم و بیش 20 ہزار پاکستانیوں کو بیرون ملک سے پاکستان لانے کے انتظامات کیے جا رہے ہیں کیا آپ کو نہیں معلوم کہ امریکا، کینیڈا اور یورپ کی فلائٹ لانے والے جہاز کے کپتان کیبن کریو میں کورونا وائرس پایا گیا یہاں تک کہ ائرپورٹس پر ان کو لانے بٹھانے اور دیگر امور کی انجام دہی میں مصروف ائرپورٹ سیکورٹی فورس اور سول ایوی ایشن کے ادنیٰ و اعلیٰ حکام بھی انہی بیرون ملک سے آنے والے پاکستانیوں کی وجہ سے کورونا کا شکار ہوئے اور آج ہی دو اعلیٰ عہدیدار اپنی زندگی کی بازی ہار گئے مگر تافتان بھی کھلا ہے باہر سے آنے والوں کا سلسلہ بھی جاری ہے مگر پنکھ کا فیصلہ کچھ بھی ہو مگر پرنالا وہیں پر گرے گا کے مصداق کچھ بھی ہو مگر بند صرف مساجد ہی کو کرنا ہے یہ منطق 22 کروڑ پاکستانیوں کی سمجھ میں ابھی تک نہیں آئی۔ ایک روح فرسا خبر یہ بھی آئی تھی کہ تافتان سے آنے والے 1109 افراد پشاور جا کر لاپتا ہوگئے یا کر دیے گئے ان میں سے ایک بھی نہیں پکڑا گیا سب کے موبائل فون بھی غلط پتے بھی غلط کیا ایسا ممکن ہے کہ پتا نہ ملے فون نہ ملے اور ساری ایجنسیاں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہیں اور ان کا کھوج لگانے کے لیے کچھ نہ کریں۔ یہ بھی لطیفے سے کم نہیں کہ وفاقی حکومت اور سندھ حکومت دو ماہ سے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچ رہی ہیں کسی بات پر متفق نہیں ہو رہیں اگر کسی بات پر متفق ہیں تو بس مساجد کو بند کرانے پر متفق ہیں اس سلسلے میں حکومت سندھ کے ترجمان مرتضیٰ وہاب کا بیان بڑا معنی خیز ہے کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ سب کھلا ہو اور مساجد بند ہوں، ان کا یہ بیان بھی اندرونی کہانی سنا رہا ہے۔ پورا پاکستان جانتا ہے کہ اشیائے خور ونوش اور دیگر اشیاء کی خریداری کے لیے پورے پورے بازار کھلے ہوئے ہیں جن میں اتنا رش ہوتا ہے کہ اتنا تو عید کے دنوں میں بھی نہیں ہوتا کیوں کہ وقت کی پابندی کے خوف سے ہر شخص جلد از جلد گھر کا سودا خریدنا چاہتا ہے۔ اندیشہ ظاہر کیا جاتا ہیکہ مساجد کھولنے کے ساتھ ہی دوبارہ بند کرنے کی دھمکیاں کیوں دی جا رہی ہیں کیا کہیں سے مساجد کھولنے پر حکومت کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔
حکومت پاکستان کی یہ آئینی ذمہ داری ہے کہ جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ ملک کی نظریاتی سرحدوں کی بھی حفاظت کرے اور ایک ایسے ملک میں جس قیام ہی مذہب اور نظریات کی بنیاد پر ہے اس میں عوام کو اسلامی عبادات پوری طرح سے کرنے کے لیے راستے ہموار کرے نہ کہ عبادات اور مساجد کی راہ میں روڑے اٹکائے کسی بھی زاویے سے دیکھ لیں موجودہ صورتحال میں ایک فی صد بھی معاملات مساجد کے خلاف نہیں جاتے پھر بھی نشانہ مساجد ہی کیوں…؟