بعد از کورونا… معیشت؟ (آخری قسط)

464

ملکی صنعت کا پہیہ مکمل نہیں تو زیادہ ترجام ہی ہے ایک بات آج تک سمجھ نہیں آئی کہ ہر کوئی اپنے کاروبار کو انڈسٹری قرار دینے کے لیے بے چین اور بے تاب نظر آتا ہے، انڈسٹری کا لفظ سامنے آتے ہی ذہن میں کسی چیز کی پیداوار کا خیال آتا ہے کہ یہ انڈسٹری فلاں فلاں چیز تیار کرتی ہے جو مارکیٹ میں بیچی جاتی ہے اور زیادہ بنا لیتی ہے تو بیرون ملک بھیج دی جاتی ہے جس سے زر مبادلہ کمایا جاسکتا ہے لیکن اگر ہوٹل کو انڈسٹری قرار دے دیا جائے تو وہ ہوٹل والا کیا چائے بنا بنا کر برامد کرے گا، تعلیم دینے والا کیا برامد کرے گا؟ الیکٹرونک میڈیا والا کیا اپنی خبریں باہر کے ملکوں کو بیچے گا جس سے زر مبادلہ حاصل ہو۔ حال ہی میں وزیر اعظم عمران خان نیازی نے مکان فلیٹس اور دیگر ہائوسنگ اسکیموں کو انڈسٹری قرار دے دیا ہے کیا یہ لوگ مکان بنا بنا کر بیرون ملک بھیجیں گے؟ یہ کیسے انڈسٹری بن گئی؟ یہ بلڈرز حکومت سے چینی آٹا اور دیگر اجناس کی طرح ہائوس بلڈنگ میں بھی سبسڈی مانگنا شروع کر دیںگے یہ کیا تماشا اس ملک میں ہو رہا ہے کہ بلڈر صرف زمین خرید لے گا پھر عوام سے اربوں کی رقوم بٹورنے کے بعد اربوں کی سبسڈی بھی حکومت سے لے لے گا۔ اس ملک میں کم و بیش دو ہزار کے قریب ایسے سرمایہ دار ہیں جن کا پیسہ ہائوس بلڈنگ میں لگا ہوا ہے بلکہ قوم کے کھربوں روپے ان کی جیبوں میں مکان فلیٹ دکان کی مد میں جا رہا ہے ان کی تو صرف زمین ہی ہے باقی سارا سرمایہ تو عوام کا ہے۔ دو ارب کا پلاٹ لیکر دس ارب عوام کی جیبوں سے اینٹھنے والا خود کو صنعت کار کہلوانے پر بضد ہے جس نے قوم کو ایک ڈھیلے کا زر مبادلہ نہیں دلوایا وہ قوم کے اربوں روپنے اینٹھ کر صنعت کاروں کی صف میں کھڑا ہونے کو بیتاب ہے پھر اس پر مستزاد یہ کہ اس سے یہ بھی نہیں پوچھا جائے گا کہ وہ جو زمین اربوں کی خرید رہا ہے اس کا سرمایہ کہاں سے آیا۔ چلو مانا
آپ کالا پیسہ سفید کرنے کا راستہ دکھانا چاہتے ہیں تو کم از کم ان کو اس بات کا تو پابند بنائیں کہ وہ ایک کارخانہ لگائیں جس میں کچھ بن سکے، الیکٹرونک کے دیگر آلات بن سکیں اور اگر نہیں تو دنیا میں دیکھیں کہ کس چیز کی ڈیمانڈ زیادہ ہے مغربی ملکوں کو بھی چھوڑ دیں چھوٹے ملکوں کو ایشیا افریقا عرب ممالک میں اشیاء کی کھپت دیکھ کر وہی کارخانے لگانا شروع کر دیں تاکہ ان کے کارخانوں میں تیار ہونے والا مال براہ راست برامد کیا جا سکے جس سے قومی خزانے میں خطیر زر مبادلہ جمع کیا جا سکے۔
آج کل جو ایک زہر قومی خزانے میں آرہا ہے اور کچھ دیے بغیر اس پر 13 فی صد سود کے ساتھ واپس انہی کے پاس جا رہا ہے جو ہزاروں میل دور بیٹھ کر ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر کو ریموٹ کنٹرول کی طرح کنٹرول کر رہے ہیں اور گاہے گاہے دھمکیاں بھی دیتے رہتے ہیں براہ راست یا آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف کے ذریعے میرا اشارہ HOT MONEY کی طرف ہے
جس کے ذریعے ایک غیرملکی اپنے سرمائے میں سے پانچ چھ ارب ڈالر اسٹیٹ بینک میں رکھ دیتا ہے اور اس پر سالانہ 13 فی صد سود لیتا رہتا ہے اور ہم اسی میں خوش رہتے ہیں کہ چلو ہمارے زرمبادلہ کے زخائر میں بیٹھے بٹھائے پانچ چھ ارب جمع ہوگئے اتنی سی عقل تو گلی کے باہر بیٹھے ہو چھوٹے سے دکاندار میں بھی ہے کہ اگر اس کی دکان پر جو چل بھی مشکل سے رہی ہو کوئی شخص دو لاکھ روپے رکھ جائے اور کہے اس پر سالانہ 13 فی صد سود مجھے دیتے رہو تو وہ کم پڑھا لکھا دکاندار بھی وہ دو لاکھ روپے اس کے منہ پر دے مارے گا کہ میری تو دکان خود مشکل سے دوچار ہے اور میں تم کو سال کے 13 فی صد سود کی مد میں ادا کرتا رہوں لیکن دنیا جہاں کی معیشت کی تعلیم حاصل کرنے والے ماہرین معاشیات کی سمجھ میں اتنی سے بات بھی سمجھ میں نہیں آتی اس کے دو ہی مطلب ہو سکتے ہیں ایک تو یہ کہ اپنے بیرونی آقائوں کی خیر خواہی کر رہے ہیں اور ملکی خزانے کو ان بیرونی آقائوں کی ہوس زر کی بھینٹ چڑھا رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں جو بھی معاشی اور فنانس پالیسیاں اپنائی جاتی ہیں ان کی مثال چائے کی پیالی میں طوفان سے زیادہ نہیں۔ ویتنام اور تائیوان جیسے چھوٹے چھوٹے ملک جن کو دنیا کے نقشے میں جگہ بھی نصیب نہیں اپنی بقا کے لیے الیکٹرونک کی اشیا برامد کرکے خطیر زرمبادلہ کما رہے ہیں۔ آپ کو یقین نہیں آئے گا کہ فار ایسٹ کے ممالک بشمول چین نے کارٹیج انڈسٹری کی بنیاد پر ہی ترقی کی وہ آج امریکا جیسے ملک کے سینے پر مونگ دل رہے ہیں، ہم تو اتنے عقل مند ہیں کہ اپنے کارخانے بند کر کے چین کو راستہ دے رہے ہیں کہ ہمارے گھر سے ہوکر دنیا بھر میں اپنی اشیا بیچتا رہے اور ہم اس کا منہ دیکھتے رہیں بجائے اس کے کہ ہمارے نام نہاد ماہرین معاشیات اور انجینئرز اور صنعت کار یہ سوچیں کہ چین کون کون سی اشیا ہمارے ملک کے راستے دنیا بھر میں فروخت کے لیے لیکر جا رہا ہے اور اگر اس کے ٹرکوں کی جگہ ہمارے ٹرک جائیں تو کیا مضائقہ ہے لیکن یہاں کسی کے پاس قوم کے لیے سوچنے کا وقت ہی کہاں ہے۔ یہاں تو بس یہ دیکھا جا رہا ہے کہ باہر سے امداد کب اور کتنی آئے گی! اور ان کے حصے میں کیا ہوگا، آج کھالو اور دس بیس سال کے بعد جب کوئی تحقیقاتی رپورٹ شائع ہوگی اس وقت تک آج کا کھایا ہوا سو گنا زیادہ ہو چکا ہوگا اگر دینا بھی پڑگیا تو وہی اصل رقم ہی دینی پڑے گی کیونکہ سزا تو کوئی ہو نہیں سکتی۔
یہ تو تھی کورونا سے پہلے کی صورتحال اب جب کورونا پہلے جھٹکے میں اس قوم کو قریب قریب 60 ہزار ارب کا مزید مقروض کر چکا ہوگا تو جو ملک پہلے کے حالات سے نمٹنے کی سکت نہیں رکھتا تھا وہ مزید اتنا ہی بوجھ اور کیونکر اٹھا سکے گا۔ آئی ایم ایف جن شرائط پر قرض دیتا ہے اس کی جھلک تو قوم دیکھ ہی چکی ہے اس پر ایک اور ادار ایف اے ٹی ایف پیچھے لگا دیا جاتا کہ کہیں ان کی دی ہوئی رقم پاکستان کی ترقی تعلیم ہنر مندی میں تو استعمال نہیں ہورہی چند ارب ڈالر لیکر پاکستان کی حالت کلاس کے اس کند ذہن بچے کی سی ہو جاتی ہے کہ وہ ہمہ وقت اپنے استاد کو لکھ لکھ کر اپنا یاد کیا ہوا سبق دکھاتا رہتا ہے اور استاد اس کو مزید بہتر کرنے کا کہتا رہتا ہے۔