کورونا کے اعداد و شمار

2864

 نائن الیون جدید دور کا واقعہ ہے۔ اس واقعے کا پوسٹ مارٹم ہوچکا ہے اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوچکا ہے مگر اب بھی آپ کسی سے اس بارے میں دریافت کریں تو آپ کو وہی کہانی سننے کو ملے گی کہ ایک دہشت گرد تنظیم القاعدہ نے امریکا کی یونائیٹڈ ائرلائن کے چار ہوائی جہاز ہائی جیک کیے تھے، جن میں سے دو ٹوئن ٹاور سے ٹکراد یے گئے تھے۔ اس کی وجہ سے ٹوئن ٹاور زمیں بوس ہوگئے۔ عراق پر حملے کی وجہ پوچھیں تو یہی جواب سننے کو ملے گا کہ صدام حسین کے پاس وسیع تباہی کے ہتھیار تھے، جن سے پوری دنیا کو خطرات لاحق تھے، اس لیے امریکا اور اس کے اتحادیوں نے عراق پر حملہ کیا۔ اسی طرح کسی سے بھی پوچھیں کہ اسامہ بن لادن کی موت کیسے واقع ہوئی، تو وہ یہی کہانی سنائے گا کہ اسامہ بن لادن ایبٹ آباد میں فوجی چھاؤنی سے متصل ایک گھر میں چوری چھپے مقیم تھے، امریکیوں نے اپنے ایک کارندے ڈاکٹر شکیل آفریدی کے ذریعے ان کا پتا لگایا اور پھر امریکی فوج نے آپریشن کرکے اسامہ بن لادن کو نہ صرف ماردیا بلکہ ان کی لاش کو لے جا کر سمندر برد بھی کردیا۔ اسے پروپیگنڈا کہتے ہیں کہ معلوم ہوچکا ہے کہ ٹوئن ٹاور سے کوئی مسافر بردار جہاز نہیں ٹکرایا بلکہ بڑے ڈرون ٹکرائے گئے تھے اور ان کی زمیں بوس ہونے کی وجہ جہاز کا ٹکرانا نہیں بلکہ بلڈنگ میں نصب کیے گئے ڈائنا مائیٹ تھے۔ اسی طرح امریکی خود بھی یہ تسلیم کرچکے ہیں کہ صدام حسین سے دنیا کو کوئی خطرہ نہیں تھا بلکہ یہ جھوٹ انہوں نے خود گھڑا تھا۔ کچھ یہی صورتحال اسامہ بن لادن کی موت کی بھی ہے مگر تمام تر حقائق کے سامنے آنے کے باوجود اسے عالمی سازش کاروں کا کمال ہی کہہ سکتے ہیں کہ عوام حقائق کے بجائے ان ہی باتوں پر یقین رکھتے ہیں جو انہیں بتایا گیا۔ یہ پروپیگنڈے کا کمال ہے کہ اگر حقائق سامنے لائے جائیں تو جھوٹ بولنے والوں کو شرمندہ کرنے کے بجائے حقائق بتانے والوں کو ہی جھٹلایا جاتا ہے۔ کچھ ایسی ہی صورتحال کورونا وائرس کے ساتھ ہے۔
کورونا وائرس کے بارے میں جو ماحول بنا دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ کورونا وائرس ہر وقت فضا میں گھوم رہا ہے۔ ہر سطح پر موجود ہے اور اب لگا کہ تب لگا۔ جس کو کورونا وائرس لگ گیا، اس کی دردناک موت یقینی ہے۔ اس ماحول کی وجہ سے یہ صورتحال پیدا ہو گئی ہے کہ لوگ اپنے پیاروں کو اگر وہ مشتبہ مریض ہوں تو انہیں اسپتال لے جانے سے کترانے لگے ہیں۔ خدا نخواستہ انتقال ہوجائے تو میت سے اس طرح دور بھاگتے ہیں جیسے بھوت چمٹ جائے گا۔ اس بارے میں مسلسل اعداد و شمار کے حوالے سے لکھتا رہا ہوں کہ ایسا کچھ نہیں ہے جو پیش کیا جارہا ہے۔ آج 9 اپریل کو وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے اپنے وڈیو خطاب میں جو اعداد و شمار پیش کیے ہیں، وہی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں۔ سید مراد علی شاہ نے بتایا کہ اب تک (9 اپریل کی صبح تک) سندھ میں مجموعی طور پر 11ہزار 623 تشخیصی ٹیسٹ کیے گئے ہیں جس میں سے 1 ہزار 188 لوگوں کے ٹیسٹ مثبت آئے یعنی ان میں کورونا کو تشخیص کیا گیا۔ ان میں سے 349 اب تک صحتیاب ہو کر گھروں کو جاچکے ہیں۔ اب تک مجموعی طور پر 21 اموات ہوئی ہیں۔ جو متاثرہ افراد ہیں، ان میں سے 436 افراد گھروں میں آئسولیشن میں ہیں۔ حکومت کے آئسولیشن مراکز میں 59 ہیں۔ اسپتالوں میں صرف 263 مریض ہیں۔ دوبارہ سے ان اعداد و شمار پر غور کیجیے۔ سندھ کی آبادی پانچ کروڑ نفوس سے زاید ہے۔ ان پانچ کروڑ افراد میں سے صرف 1 ہزار 188 افراد میں کورونا کی تشخیص ہوئی جن میں سے صرف 21 افراد کو کورونا کے نام پر موت کے سرٹیفکٹ جاری کیے گئے۔ یعنی پورے سندھ کے اسپتالوں میں کورونا کے نام پر محض 263 مریض ہیں جبکہ لیبر کیمپ سکھر سمیت سارے آئسولیشن مراکز میں صرف 59 افراد ہیں۔ مرنے والوں کی صورتحال کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ 2 اپریل کو روزنامہ جنگ کراچی کے رپورٹر نے خبر دی کہ یکم اپریل تک کراچی میں کورونا سے مرنے والوں کی تعداد 9 تھی، یہ سارے کے سارے افراد پہلے سے سرطان، گردوں اور دمہ جیسی سنگین بیماریوں میں مبتلا تھے۔ ان میں سے کئی کے مرنے کے بعد کورونا کے ٹیسٹوں کی رپورٹ منفی آئی۔ یعنی جو لوگ پہلے سے قریب المرگ تھے، ان کی موت کو کورونا کے کھاتے میں ڈال دیا گیا۔ اسی طرح ڈان نیوز کی اردو ویب سائٹ نے 7 اپریل کو خبر دی کہ حیدرآباد میں حسین آباد کے رہائشی کے بارے میں بتایا گیا کہ اس کی موت کورونا سے ہوئی ہے اور وہ حیدرآباد سے تعلق رکھنے والا پہلا شخص تھا، جس کی موت کورونا سے ہوئی۔ مذکورہ شخص کے مرنے کے بعد اس کی رپورٹ آئی، جس سے پتا چلا کہ اس کی رپورٹ منفی ہے۔ مذکورہ شخص پہلے سے فالج سمیت دیگر بیماریوں کا شکار تھا اور حالت بری ہونے کے باعث اسپتال میں داخل تھا۔ ان اعداد و شمار سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حقیقی صورتحال کیا ہے اور اسے کس قدر سنگین بنا کر اور توڑ مروڑ کر پیش کیا جارہا ہے۔ سندھ کے اعداد وشمار کو دیگ کے ایک دانے کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے، جس کی مدد سے ہم پوری تصویر کا اندازہ کرسکتے ہیں۔ یہی صورتحال پوری دنیا کی ہے۔
امریکی ریاست مونتانا کی پروفیسر ڈاکٹر اینی بکاسک نے اپنے ایک لیکچر میں بتایا کہ کس طرح سے ان ساری اموات کو جن کی کوئی توجیہہ نہ ہو، کورونا کے کھاتے میں ڈالا جارہا ہے۔ ڈاکٹر اینی کا یہ انکشاف اس لنک
(باقی صفحہ7نمبر2)