بجلی کا بل کیوں اور کیسے

746

کراچی کم و بیش ڈیڑھ ماہ سے لاک ڈاؤن کا شکار ہے جس کی وجہ سے یہاں پر ہر قسم کی معاشی سرگرمی رک کر رہ گئی ہے ۔ کارخانے اور تجارتی مراکز بند ہیں اور لوگ گھروں میں محصور ہیں ۔ ایسے میں پوری دنیا میں اکنامک پیکیج دیے جارہے ہیں تاکہ وہاں کے لوگ زندگی میں دوبارہ سے واپس آسکیں ۔ ترقی یافتہ ممالک نے تو باقاعدہ نقد رقوم اپنے شہریوں کے اکاؤنٹ میں منتقل کی ہیں ۔ پاکستان اور خصوصی طور پر کراچی کا تو عجیب ہی حال ہے کہ یہاں پر ادارے اور حکومتیں الٹا عوام کا خون چوسنے پر آمادہ ہیں۔ سرکار نے تو ملازمین کی تنخواہوں میں ہی کٹوتی کرڈالی ۔ نجی شعبہ پہلے ہی بدحالی کا شکار ہے ۔ کارخانوں اور دکانوں میں یومیہ اجرت پر کام کرنے والے کس طرح سے اپنے دن کاٹ رہے ہیں ، یہ تو وہی بخوبی جانتے ہیں ۔ ایسے میں شہری حکمرانوں کے بلندبانگ دعووں کو سن کر امید کررہے تھے کہ یہاں پر بھی کوئی اکنامک پیکیج دیا جائے گا ۔ اس کے جواب میں حکومت نے کہا کہ بجلی کے بل تین ماہ میں ادا کیے جاسکیں گے ۔ کے الیکٹرک نے اس حکم کو بھی ماننے سے انکار کرتے ہوئے مزید بم گرایا کہ اس ماہ کے بل اوسط کی بنیاد پر بھیجے جائیں گے ۔ تمام مارکیٹیں بند ہیں ، کارخانوں میں تالے لگے ہیں ، آمدنی تو دور کی بات ہے جو بچت تھی وہ بھی ختم ہوگئی ہے ۔ ایسے میں یہ لوگ اس بجلی کا بل کیسے ادا کریں گے جو انہوں نے خرچ ہی نہیں کی ہے ۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب دکانیں اور کارخانے بند ہیں تو بجلی کا بل کیوں ۔ اسی طرح گھروں میں رہنے والے بھی کس طرح سے گیس اور بجلی کا بل ادا کریں گے کہ ان کے پاس کوئی آمدنی ہی نہیں ہے ۔ اصولی طور پر تو ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس عرصے کے لیے حکومت اپنے تمام ٹیکس معطل کردیتی اور گیس و بجلی کے اداروں کو بھی حکم دیتی کہ وہ اس عرصے کے لیے اپنے نرخوں میں کٹوتی کریں اور قومی ذمہ داری کا ثبوت دیں ۔ یہ کام تو حکومت نے کیا نہیں ، البتہ ان اداروں کو اس بجلی اور گیس کا بل بھی وصول کرنے کی اجازت دے دی جو استعمال ہی نہیں کی گئی۔ ان سرکاری اقدامات سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ملک میں عوامی حکومت کے بجائے دشمن حکمراں بیٹھے ہیں جو عوام کو قبروں میں پہنچا کر ہی سکون محسوس کریں گے ۔ کراچی میں کورونا کا پہلا کیس فروری کے آخر میں دریافت ہوا تھا ، اس واقعے کو ڈیڑھ ماہ کا عرصہ ہورہا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ کراچی سمیت پورے ملک میں کوئی وبائی صورتحال نہیں ہے ۔ اصولی طور پر تو بتدریج معاشی سرگرمیاں بحال کردینی چاہییں مگر اب تک نہ تو ایسا کیا گیا ہے اور نہ ہی اس کے کوئی آثار دکھا ئی دے رہے ہیں ۔ حکومت فوری طور پر بجلی اور گیس کے بلوں میں سے اپنے ٹیکس معطل کرے اور ان اداروں کو بھی حکم دے کہ وہ اپنے نرخوںمیں قابل ذکر کمی کریں ۔ اس کے علاوہ بجلی اور گیس کے بلوں کی ادائیگی کی تاریخ میں بھی کم ازکم تیس دن کا اضافہ کیاجائے تاکہ شہری روزگار پر جا کر ان بلوں کی ادائیگی کے قابل ہوسکیں ۔ اس ضمن میں سندھ حکومت کو بھی اپنا حصہ ڈالنا چاہیے ۔ سرکار لوگوں کو راشن دے کر بھکاری بنانے کے بجائے انہیں روزگار کمانے کا موقع فراہم کرنے کی طرف توجہ دے تو یہی اس کے لیے بھی بہتر ہے اور عوام کے لیے بھی۔