عافیہ لاک ڈائون کے 17برس

827

ڈاکٹر عافیہ کو امریکی قید میںآج 17 برس ہو رہے ہیں ۔ انہیں اور ان کے تین معصوم بچوں کو جنرل پرویز مشرف نے چند ڈالروں کے عوض فروخت کر دیا تھا اس کے بعد امریکا میں جعلی عدالت میں جعلی مقدمہ چلا کر انہیں جعلی سزائیں سنادی گئیں ۔ ان پر دہشت گردی کا کوئی مقدمہ نہیں تھا اور نہ ہی ان پر جعلی الزامات ثابت ہوسکے لیکن سزا ہو گئی اور دنیا خاموش رہی ۔آج ڈاکٹر عافیہ کی قید کو 17 برس مکمل ہو گئے ہیں ۔ڈاکٹر عافیہ کی بیٹی اور بہن کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس کہنے کو کچھ نہیں ۔ حکمرانوں کے پاس تو پہلے بھی کچھ کہنے کو نہیں تھا مگر اب تووہ عافیہ کے بارے میں سوال کا سامنا بھی نہیں کر سکتے۔ ایسا لگتا ہے کہ اب ہمیں یا کسی کو ان کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیںکیوں کہ قدرت نے اب یہ معاملہ اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے ۔ جو لوگ پہلے ڈاکٹر عافیہ کے بارے میں منہ نہیں کھولتے تھے اور ان کے بارے میں سوال پر منہ چھپاتے تھے، آج یہ حکمران دنیا سے نہ صر ف منہ چھپانے پر مجبور ہیں بلکہ قرنطینہ میں بھی ازخود جارہے ہیں۔ ہر پاکستانی اب سمجھ چکا ہے کہ قید تنہائی کیا ہوتی ہے مگر ڈاکٹر عافیہ تو گزشتہ 17 برس سے اس لاک ڈاؤن میں ہیں ۔ یہ بھی قدرت کا انصاف ہے کہ جس جس نے ڈاکٹرعافیہ، کشمیر، غزہ ، برما ، بنگلا دیش اور دنیا بھر کے مظلوموں سے چشم پوشی کی تھی آج وہ خوداپنے آپ کو قید تنہائی میں رکھنے کا فیصلہ کرنے پر مجبور ہیں۔ اس موقع پر ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم اور آپ تو وی آئی پی لاک ڈاؤن میں ہیں۔ اس لاک ڈاؤن میں کھانا، بجلی ، فون ، واٹس اپ ، اسپتال کی سہولت سب کچھ موجودہے مگر ڈاکٹر عافیہ کا سوچیں کہ وہ گھر والوں سے دور ہیں، کھانے کا پتا نہیں، فون پر کوئی رابطہ نہیں۔ قید تنہائی تو اسے کہتے ہیں۔ ابھی آٹھ دن ہوئے ہیں تو لوگوں کی جان پر بن گئی ہے،مگر کشمیریوں کالاک ڈاؤن آٹھویں ماہ میں ہے، غزہ کے لاک ڈاؤن کو کئی برس ہو گئے ہیں اور ساری دنیا خاموش ہے ۔ اسے قدرت کی ستم ظریفی ہی کہا جاسکتا ہے کہ اب ساری دنیا اسی حالت سے گزر رہی ہے جس سے ڈاکٹر عافیہ ، کشمیری ، غزہ کے فلسطینی اور روہنگیا کے مسلمان گزر رہے ہیں ۔ اب بھی وقت ہے کہ حکمران اپنی غلطیوں کا ازالہ کرسکتے ہیں۔ دنیا میں قیدیوں کے تبادلے ہو رہے ہیں مگر عافیہ کے لیے بات کرنے کی ہمت نہیںہے ۔