قال اللہ تعالیٰ و قال رسول اللہ ﷺ

226

 

یہ سمجھ رہے ہیں کہ حملہ آور گروہ ابھی گئے نہیں ہیں اور اگر وہ پھر حملہ آور ہو جائیں تو ان کا جی چاہتا ہے کہ اْس موقع پر یہ کہیں صحرا میں بدوؤں کے درمیان جا بیٹھیں اور وہیں سے تمہارے حالات پوچھتے رہیں تاہم اگر یہ تمہارے درمیان رہے بھی تو لڑائی میں کم ہی حصہ لیں گے۔ در حقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ تھا، ہر اْس شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخر کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے۔ اور سچے مومنوں (کا حال اْس وقت یہ تھا کہ) جب انہوں نے حملہ آور لشکروں کو دیکھا تو پکار اٹھے کہ ’’یہ وہی چیز ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا، اللہ اور اْس کے رسولؐ کی بات بالکل سچّی تھی‘‘ اِس واقعہ نے اْن کے ایمان اور ان کی سپردگی کو اور زیادہ بڑھا دیا۔ (سورۃ الاحزاب:20تا22)

سیدنا ابوہریرہؓ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص مغرب کی سمت سے آفتاب طلوع ہونے سے پہلے پہلے توبہ کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرمائے گا۔ (مسلم) تشریح: علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ یہ توبہ قبول ہونے کی حد ہے کہ مغرب کی سمت سے آفتاب نکلنے سے پہلے تک توبہ کا دروازہ کھلا رہے گا لہٰذا اس وقت تک جو بھی توبہ کرے گا اس کی توبہ قبول کرلی جائے گی لیکن اس کے بعد کی جانے والی توبہ قبول نہیں ہوگی اسی طرح توبہ قبول ہونے کی ایک حد شخصی ہوتی ہے جس کا تعلق ہر فرد سے ہوتا ہے اور وہ حالت غرغرہ (نزع) سے پہلے پہلے کا وقت ہے یعنی جو شخص حالت غرغرہ سے توبہ کر لے گا اس کی توبہ قبول ہوگی۔ حالت غرغرہ میں کی جانے والی توبہ قبول نہیں ہوگی۔ (مشکوٰۃ)