اے روح قائد میری گواہی

509

عالیہ زاہد بھٹی

بانی پاکستان محمد علی جناح کے مزار کے سامنےوسیع وعریض میدان میں 7مارچ بروز ہفتہ سہ پہر 3بجے سے اک عجیب سی ہلچل نظر آئی شاندار اور خوبصورت قناتوں سے مزین اک بہت بڑا خیمہ سا تانا گیا تھا دیکھنے سے ہی پتہ چل رہا تھا کہ کسی بہت ہی قابل قدر،قابل عزت و تکریم افراد کی کوئ تقریب ہے
بہت سلیقے سے گاڑیوں کی آمد،افراد کا گاڑیوں سے نکل نکل کر دیگر افراد کے سمندر میں کشاں کشاں خوبصورت سے داخلی دروازے سے اندر داخل ہونا اور اسی ترتیب وتنظیم سے خالی نشستوں پر بیٹھتے چلے جانا
میں بھی افراد کے اسی سمندر کے ایک ریلے کا حصہ تھی جیسے سمندر کا بہتا ہوا پانی بغیر کسی طوفان کے پر سکون حالت میں موج در موج بہتا ہے ویسے ہی جنت کی ان حوروں کے سمندر کے ریلے میں،میں بھی اپنے علاقے کی بس سے اتر کر بہتی چلی گئی ۔
ہر طرف سلام،سلام،نہ کوئی دھکا نہ ٹھوکر گنگناتی ہوئی آوازیں چہار اطراف سے السلام علیکم،السلام علیکم،گیٹ پر حجابوں اور نقابوں میں لپٹے اپنے جانے مانے وجود وضو کرکے پاک صاف،حاجتوں کے نفل پڑھ کر آئے ہوئے وجود کئی دنوں پر مشتمل ملاقاتوں کی مشقتوں سے گزرے ہوئے وجود آج استقبالیہ پر کھڑے ہو کر اپنی مشقتوں کو بار آور ہوتا دیکھنے کے منتظر،تھے،ان سے مصافحہ کرتے ہوئے اسی ریلے میں دھیمے دھیمے بہتے ہوئے خالی نشستیں ڈھونڈ کر اپنے لوگوں کو ان پر بٹھایا تو سوال پوچھا گیا کہ
“کیا یہ کسی اسکول کالج کی طالبات ہیں جو اسقدر منظم ،مربوط،اور مظبوط نظر آرہی ہیں،میں نے جواب دیا
“نہیں بہن!یہ جماعت اسلامی کے حلقہ خواتین کی تربیت وترتیب سے تطہیر شدہ خواتین ہیں ،یہ قرآن سے ڈائریکٹ مدد حاصل کرکے تطہیر افکار و تطہیر کردار کے عمل سے گزر کر آئی ہیں ان کا منشور قرآن ہے ،ان کا دین اسلام ہے،ان کا استاد نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے اور ان کا وعدہ نفاذ اسلام ہے،یہ سوتے میں خواب بھی دیکھتی ہیں تو بڑے منظم اور باترتیب،ان کے دعوت دین کا طریقہ منظم اور مربوط،ان کے الخدمت کے فلاحی کاموں میں کپڑوں کی پیکنگ سے لیکر راشن کی تقسیم تک میں نظم و ضبط ہوتا ہے ،ان کے بیٹھک اسکول نیٹ ورک کے پروگراموں کو دیکھیں یا کسی سیلابی،آسمانی وزمینی آزمائشوں میں ان کی کارکردگیوں کو ،ان کی کشمیر ،مصر برما وفلسطین کے لیے نکالی جانے والی ریلیوں کو دیکھیں یہی تنظیم وترتیب،کڑی دھوپوں،برستے بادلوں نے بھی کبھی ان کے پائے استقلال کو لرزاں نہیں کیا ،یہ ڈٹی ہوئی ہیں،کھڑی ہوئی ہیں،ہر پل اگلی صفوں میں نظریں اور سماعتیں گاڑے ،حکم ربی کے نفاذ کی جدوجہد میں منہمک،رب کی حکم عدولی پر باز کی طرح جھپٹ کر،لپک کر اپنا موقف پیش کرنے والیاں، دیکھیں ہر طرف یہی نظم یہی ترتیب ،آج تو رب کے عورتوں کو دیے ہوئے منشور کو منوانے جمع ہوئ ہیں آج بھی وہی نظم و ضبط ان کا خاصہ ہے”
اپنے ان جنت کی حوروں سے وابستہ ہونے کے ناز کو محسوس کرتے ہوئے اک اک قدم جنت کی طرف بڑھتا محسوس کرتے ہوئے میں اسٹیج کے ساتھ بنے سوشل میڈیا ٹیم کے ٹیبل پر جاکر رک گئی ہرے ہرے اسکارف پہنے رپورٹنگ میں مصروف بہنوں میں شامل ہوگئ اور اپنے بیگ میں سے کاغذ اور قلم کا ہتھیار نکال کر ان کے ساتھ شریک جہاد ہوگی،
اسٹیج پر منظر بدلتے گئے،الفاظ بدلتے گئے،انداز بدلتے گئے،مگر متن اپنے منشور سے ایک انچ بھی پیچھے نہ ہٹا،اسٹیج پر بولنے والے اپنے اکابرین کے الفاظ کو ان کے زیر وبم سمیت صفحات کے ٹکڑوں پر منتقل کرتے ہوئے رپورٹنگ کے لئے کمپیوٹر سائیڈ پر مصروف ٹیم تک منتقل کرتے ہوئے بارہا ہاتھ لرز لرز کر رہ گئے کہ یہ گواہیاں لکھ رہی ہوں،ایسی ہی کچھ گواہیاں میرے کاندھوں پر بیٹھنے والے بھی لکھ رہے ہیں،میں کتنے اچھے لوگوں کی کتنی پیاری پیاری گواہیاں لکھ رہی ہوں اور میری گواہی؟؟؟؟؟؟؟
اللہ اکبر،،،،،،ہاتھ اپنی روانی کھونے لگا اپنے اعمال وافعال کی کوتاہیاں لرزا گئیں
کہ اسٹیج سے آتی صدا مقصد کی طرف واپس لے آئی جہاں سے کہا جا رہا تھا کہ
“وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے”
میں نے دور نظر آتے قائد کے مزار کو دیکھا اور اپنے قلم کی روانی کو اور تیز کیا یہ سوچ کر کہ
“قائد اعظم بھی اگر صرف اپنی ذات کو سنوارتے،رہتے تو ان کے کریڈٹ پر ذاتی اعمال کا پہاڑ تو کھڑا ہو سکتا تھا مگر یہ پاکستان جو آج”کھڑا”ہے یہ نہ ہوتا اس پاکستان میں ہونے والی ہر اذان،ہر نماز ہر قربانی آج میری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وراثت کی امین اور قائداعظم کے مزار پر رحمتوں کی مکین ہے،انشاءاللہ”
شمائلہ نعیم کی آواز مجھے دوبارہ حال میں واپس لے آئی وہ انیلہ علی کا تعارف کرارہی تھیں میں نے تمام سابقوں اور لاحقوں کے ساتھ نوٹ کیا
مگر جب وہ اللہ کے دین کی مجاہدہ بولی تو آپ اپنا تعارف اس کا بیان تھا ،طالبات کی ترجمان،تمام تر جدید تحقیق سے آراستہ وہ باخبر تھی کہ میرے وطن کی عورتوں کے حقوق پر کہاں سے نقب لگا کر انہیں ان کی اقدار سے دور کیا جا رہا ہے پھر یکے بعد دیگرے حمیرا طارق،دردانہ صدیقی کو سنا کم وبیش ہر اسپیکر تکریم نسواں کے حوالے سے ایک ہی پیج پر کھڑا تھا
ان سب کا موقف ایک ہی تھا کہ اللہ کے دین نے ہمیں حقوق دیے تم اہل مغرب کون ہوتے ہو برابری کے نام پر ہمیں ہمارے حقوق سے محروم کرنے والے حمیرا طارق نے بہت خوب کہا کہ اہل مغرب کا ایجنڈا اصل میں یہ ہے کہ
“ہم وہ کریں جو ہماری ذمہ داری ہے،اس کے ساتھ ہی ہم وہ بھی کریں جو ہماری ذمہ داری ہی نہیں”
ان کا کہنا تھا کہ دشمن کی اس چال کو سمجھیں
پھرقیمہ جماعت دردانہ صدیقی کاکہنا بھی یہی تھا کہ
“عورت کی خوشیاں اس کے خاندان سے منسلک ہیں اور اک مخصوص طبقہ ہمیں مغربی سانچے میں ڈھالنا چاہتا ہے”
ناظمہ کراچی اسماء سفیر کے خطاب میں سب سے اظہار تشکر کے ساتھ یہی موقف اختیار کیا کہ
ان سب خواتین کی یہاں آمد اس بات کا ثبوت ہے کہ
قوموں کی عزت ہم ہی سے ہے
پھر وہ تکریم ،وہ بیان، وہ مان ،وہ عزت جو ہر گھر میں اچھا کام کرنے پر،اچھا کھانا بنانے پر،اچھا گھر سجانے پر،اچھا میٹھا بنانے پر،اچھی پڑھائ کرنے پر ہر اک اچیومنٹ پر جو گھر کے مرد سربراہ سے گھر کی عورتوں کو ملتی ہے وہ مان،وہ،تکریم، وہ عزت امیر جماعت اسلامی پاکستان جناب سراج الحق صاحب کی آمد اور ان کے خطاب سے ملی
امیر جماعت کا ایک ایک لفظ تکریم نسوں کا پیکر اور عورتوں کی عزتوں کا محافظ تھا جیسے ہر گھر میں باپ کے الفاظ اس گھر کی بیٹیوں کو آگے اور آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتے ہیں اسی طرح امیر جماعت اسلامی پاکستان جناب سراج الحق صاحب کے الفاظ نہ صرف پنڈال میں بیٹھی عورتوں کو ان کی دینی خدمات پر خراج تحسین پیش کررہے تھے بلکہ انہوں نے باقاعدہ طور پر تمام عورتو،ں کے حقوق کی آواز بلند کی اور پورا کا پورا خواتین کے حقوق کا چارٹر پیش کرکے وقت کے ایوان سے مطالبہ کیا کہ
“اب یہ وقت خالی خولی دعووں کا نہیں،بلکہ اب جو شخص اپنی بہن کو جائداد میں سے حصہ نہ دے وہ الیکشن لڑنے کا اہل نہیں ہوگا ،اسے پہلے اپنی بہنوں سے سرٹیفیکیٹ لینا ہوگا کہ وہ اپنے باپ کی وراثت میں سے بہنوں کو حصہ دے چکا تو پھر اسے الیکشن کمیشن کلئیر کرے گی”
وہاں موجود تمام خواتین کی طرف سے اس اعلان پر اور تمام مطالبات پر بجتی زور دار تالیاں گواہ تھیں کہ یہ تمام عورتوں کی آواز ہے
امیر جماعت نے تکریم نسواں کا بل اس وومن کانفرنس میں پیش کرکے سب سے رائے مانگی تو ہر جانب سے گواہی کے لئے ہاتھ اٹھائے گئے،میں بے اختیار کھڑی ہو گئی اپنا ہاتھ اٹھائے میں بھیگی ہوئی آنکھوں سے اس ٹھاٹھیں مارتے سمندر کی لہروں سے گواہیاں کشید کر رہی تھی اظہار تشکر سے میری آنکھوں سے اشک رواں تھے
اور کانوں میں ناظمہ کراچی اسماء سفیر کا اظہار تشکر گونجا کہ
“یہ تمام محفل اس کا انعقاد اس کی دعوتیں اس کا انتظام،صرف اور صرف عورتوں کی تنہا کاوش نہیں اس میں ہماری تحریک سے منسلک بھائیوں اور،بیٹوں کی انتھک محنتوں کا بھی حصہ ہے ”
اور یہ حقیقت مجھے اب سمجھ آئی سراج الحق صاحب کے پیش کردہ تکریم نسواں بل سے لیکر تنبو،قناتوں،لائٹوں اور کرسیوں کے انتظامات میں ہر ہر جگہ ویسے ہی مردوں کا حصہ تھا جیسے گھروں میں بیٹیوں سے ہلکا کام لینے اور بیٹوں سے بھاری کام لینے کی ہماری روایت،کہ یہ بیٹیوں کی تکریم ہے
اور یہی اس کانفرنس کا سلوگن تھا جو کہ قولی اور فعلی ہر دو اعتبار سے مکمل طور پر مطابقت رکھتے ہوئے امیر جماعت کی دعا پر اختتام پذیر ہوا
واپسی میں بھی انتہائی نظم و ضبط موجود تھا ہم جس داخلی دروازے سے آئے تھے ہمارے بعد ہزاروں مزید خواتین کی آمد کے ساتھ ہی قناتوں کو کھول کر اور وسیع کیا گیا تھا
اور اب دم واپسی دو،تین جگہ سے مزید دروازے قناتیں کھول کر بنائے گئے تھے
سامنے مزار قائد کو دیکھ کر دل ہی دل میں ان کی روح کو آواز دی
“اے بابائے قوم!آپ نے پاکستان بنایا تھا اور ہم پاکستان سجائیں گے ان رنگارنگ،حجابوں اور نقابوں کی تکریم کے ساتھ،ہم آپ کے ،پاکستان کے اصل چارٹر
“لاالہ الاللہ محمد رسول اللہ”
کو اس ملک پر نافذ کرکے رہیں گے
ہمارے امیر نے بھی کہہ دیا ہے کہ
“یہ کلمہ نافذ ہوگیا تو پھر عورتوں کو رب کے ودیعت کردہ حقوق لینے سے کوئی نہیں روک سکتا”
انشاء اللہ
قائد کی روح سے باتیں کرتے ہوئے
میں فون پر اپنے لوگوں سے رابطہ کرکے بس کی تلاش میں نکلی میرے بچے میری تحریکی بہنوں کے ساتھ بس میں جاچکے تھے
بسوں اور گاڑیوں کے منظم اژدہام میں میں اپنی مطلوبہ بس ڈھونڈنے میں مزید دیر لگ سکتی تھی اگر جو یہ بسیں ترتیب سے نہ کھڑی ہوتیں،میرے ساتھ فون پرمستقل مجھے بتانے والی میری بہنوں نے آخر کار سڑک کی طرف سے دوسری لایئن میں لگی میری بس مجھے مل گئی
گھر واپس آکر میاں صاحب اور بیٹوں کو سب روداد سنائی تو وہ بیک زبان بولے
“واقعی گھر کی رونق اور قوموں کی عزت واقعی تم عورتوں کے دم سے ہی ہے”