تدبیر کریں دہشت مت پھیلائیں

694

اس میں اب کوئی شک اور شبہ نہیں رہا کہ کورونا وائرس کے سلسلے میں، میں نے جن جن خدشات کا اظہار اپنے کالم ’’چین کے جدید ترین کورونا میزائیل‘‘ میں کیا تھا وہ قریب قریب سب کے سب درست ثابت ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ میں نے اپنے کالم میں کہا تھا کہ یہ وائرس ہر شے کے ساتھ لپٹ کر ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کی نہ صرف بھرپور صلاحیت رکھتا ہے بلکہ اسی دوران یہ کسی بھی جسم سے باہر رہنے کے باوجود اپنی تعداد کو بہت برق رفتاری کے ساتھ بڑھا بھی لیتا ہے اور پھر کسی بھی دوسرے جسم میں منتقل ہونے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اسی نکتے کو سامنے رکھتے ہوئے میں نے اس بات کا خدشہ بھی ظاہر کیا تھا کہ جو وائرس کرنسی نوٹوں تک میں چھپ کر اپنے آپ کو زندہ رکھتے اور اپنی افزائش کو پروان چڑھاتے ہوئے کسی بھی قریبی انسانی جسم میں داخل ہو سکتا ہے تو وہ پرندوں اور چرندوں کے جسموں پر سوار ہوکر کہاں کہاں نہیں پہنچ گیا ہوگا۔ یہ تو سب میرے اندازے تھے لیکن میرے ان اندازوں کو آج اس خبر نے مزید تقویت بخشی جب سائنسدانوں نے تحقیق کے بعد یہ بیان جاری کیا کہ کورونا وائرس ہواؤں کے ذریعے نہ صرف پھیل جانے کی صلاحیت رکھتا ہے بلکہ آہستہ آہستہ اب یہ وائیرس فضاؤں میں حلول ہوتا جا رہا ہے اور ایسی صورت میں بہت تیزی کے ساتھ اس کے پوری دنیا میں پھیل جانے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔
یہ ساری حقیقتیں اپنی جگہ، لیکن اس سے بچنے کے لیے جو تدابیر اختیار کی جارہی ہیں وہ کورونا سے بھی زیادہ خوفناک ہیں اس لیے کہ اگر شہر کے شہر بند کر دیے جانے کا عمل جاری رہا تو لوگ کورونا سے کم اور اسی قسم کی حفاظتی حکمت عملیاں اختیار کر کے زیاد مشکلات کا شکار ہو جائیں گے اور ممکن ہے کہ بھوک، پیاس اور افلاس کے مارے لوگ ایک دوسرے کے لہو کے ہی پیاسے ہو جائیں۔
اس وقت دنیا بھر میں کورونا وائرس کی وجہ سے خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے۔ اس وائرس سے اب تک ہونے والی اموات نے تین ہزار کا ہندسہ بھی نہیں عبور کیا ہے اور اس مرض میں مبتلا ہونے کے بعد مرنے کی شرح 2 فی صد سے بھی کم ہے۔ مرنے والے یہ 2 فی صد افراد بھی وہ ہیں جو یا تو عمر رسیدہ تھے یا پھر انہیں سانس کی پہلے سے بیماری تھی۔ کورونا کا خوف اپنی جگہ لیکن دنیا میں مختلف بیماریوں سے ہلاکتوں کو اگر سامنے رکھا جائے تو دل ہل کر رہ جاتا ہے۔ ٹی بی سے ہر برس ایک کروڑ افراد بیمار ہوتے ہیں جن میں سے 15 لاکھ افراد جان سے جاتے ہیں۔ ڈائریا کے سبب ہر برس ایک ارب 70 کروڑ افراد بیمار ہوتے ہیں جن میں سے ساڑھے پانچ لاکھ مرجاتے ہیں۔ نمونیا سے ہر برس دس لاکھ سے زائد اموات ہوتی ہیں جس میں اکثریت بچوں کی ہے۔ پانچ سال سے کم عمر بچوں میں 15 فی صد اموات کی وجہ نمونیہ ہی ہے۔ ملیریا سے ہر برس 23 کروڑ افراد بیمار ہوتے ہیں اور پانچ لاکھ کے قریب افراد موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ خسرہ سے سالانہ مرنے والوں کی تعداد تقریباً ڈیڑھ لاکھ ہے۔ ہیضے سے ہر برس چالیس لاکھ متاثر ہوتے ہیں اور ڈیڑھ لاکھ افراد موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ایڈز سے اب تک چار کروڑ افراد متاثر ہوچکے ہیں جن میں سے ساڑھے تین کروڑ افراد مرچکے ہیں۔ ڈینگی سے سالانہ متاثر ہونے والوں کی تعداد چالیس کروڑ کے قریب ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا کی نصف آبادی کو ڈینگی سے خطرات لاحق ہیں۔ ہیپاٹائٹس اے، بی اور سی سے ہونے والی اموات بھی دنیا بھر میں لمحہ فکر ہیں۔ صرف پاکستان ہی میں ڈیڑھ کروڑ افراد اس سے متاثر ہیں۔ اگر اخبار میں دیے گئے ان حقائق کو سامنے رکھا جائے تو جس انداز میں کورونا کے خلاف دنیا کا ردِ عمل سامنے آ رہا ہے وہ کوئی اور ہی کہانی سناتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ لگتا ہے کہ اس میں مرض سے بچے رہنے کی تراکیب کی تعلیم کم اور بین الاقوامی سیاست زیادہ موجود ہے۔
بیماریاں اللہ کی جانب سے آزمائش بھی ہوتی ہیں اور عذاب بھی۔ اس لیے نہ صرف ان سے بچنے کی تدابیر اختیار کی جانی چاہئیں بلکہ اپنے اعمال کی اصلاح اور اللہ کے حضور ان کے ٹل جانے کی دعائیں بھی مانگنا چاہیے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمان ہونے کے ناتے اگر اسلام کی روشنی میں جائزہ لیا جائے تو اپنے عقائد کے اعتبار سے چینیوں کا کردار قابل تعزیر نظر آتا ہے لیکن ایمانداری سے جائزہ لیا جائے تو وہ کون سا گناہِ عظیم ہے جو اس وقت دنیا بھر کے مسلمان اور خصوصاً ہم پاکستانی نہیں کر رہے ہیں۔ بلکہ دیانتدارانہ تجزیہ کیا جائے تو ہم دوہرے گناہگار ہیں اس لیے کہ دنیا کی دیگر اقوام کے پاس اللہ کا پیغام نہ تو موجود ہے اور نہ ہی اسے ان کے سامنے کسی نے پوری حقانیت کے ساتھ پہنچایا ہے جبکہ ہمارے ہر گھر میں اللہ کی کتاب موجود بھی ہے اور ہم دن رات اس کی تلاوت بھی کیا کرتے ہیں۔ اللہ کے واضح پیغام کو اچھی طرح جان اور سمجھ لینے کے باوجود اگر ہم اس کے احکامات پر دل سے عمل کرنے کے لیے تیار نہیں تو ہم یقینا دہرے گناہ کا شکار ہو رہے ہیں۔ اسی بات کو سامنے رکھتے ہوئے امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کہا ہے کہ ’’کورونا وائرس سے خوف زدہ ہونے کے بجائے اللہ سے اجتماعی توبہ و استغفار کی ضرورت ہے۔ حکمرانوں کی نااہلی کی وجہ سے آج پورے ملک میں کورونا کا خوف و ہراس پھیل چکا ہے۔ چین میں 2 ماہ سے کورونا وائرس سے اموات ہورہی تھیں، مگر حکمران ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے اور اس وبا سے بچاؤ کے لیے کوئی موثر قدم نہیں اٹھایا گیا۔ افغانستان اور ایران کے ساتھ ہمارا سیکڑوں کلو میٹر بارڈر ملتا ہے۔ دونوں ممالک میں کورونا کے کیسز سامنے آنے کے باوجود ان بارڈرز پر اسکریننگ کا انتظام کیا گیا نہ اس کے سدباب کی کوئی کوشش کی گئی جس کی وجہ سے یہ وبا پاکستان میں بھی داخل ہوگئی‘‘۔
جب حکومتی سطح پر غفلتوں کا یہ عالم ہو اور اجتماعی و انفرادی سطح پر اسلام کے اصولوں کے انحراف کا مظاہرہ کیا جا رہا ہو تو پھر اس بات کی تمنا کرنا کہ اللہ تعالیٰ ہمیں عذاب سے محفوظ رکھے تو یہ فعل یا ایسی سوچ کسی بھی سطح پر قابل ستائش شمار نہیں کی جا سکتی۔ کوئی گناہ گار ہو یا کوئی ایمان کے اعلیٰ درجے پر فائز، ہر فرد کو بہر کیف اللہ ہی سے دعا کرنی چاہیے اور ہر فرد، خواہ وہ اللہ اور اس کے پیغام کا منکر ہی کیوں نہ ہو، جب جب بھی مصیبت میں گھر جاتا ہے وہ اللہ ہی کی جانب رجوع کرتا ہے اور ردِ بلا و آزمائش کی دعائیں مانگتا ہے۔ اللہ ہر ذی روح کا رب ہے اس لیے وہ سب کی سنتا بھی ہے اور ان کو آزمائش اور امتحان سے نکال بھی لیتا ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ جب تک اپنے گناہوں سے دل کی گہرائیوں کے ساتھ توبہ نہ جائے اس وقت تک دعا مقبول نہیں ہوا کرتی سوائے اللہ تعالیٰ کی مہربانی کے، اس لیے اب یہ ضروری ہو گیا ہے کہ پاکستان اور دنیا کے سارے مسلمان اللہ کے حضور سچے دل کے ساتھ توبہ کریں اور اس ناگہانی آفت سے بچے رہنے کا دعائیں مانگیں۔
حکومت جس انداز میں اپنی خوفزدگی کا اظہار کر رہی ہے وہ انداز پاکستان کی مشکلات میں مزید اضافے کا سبب بن سکتا ہے۔ کورونا کے صرف دو ہی کیسز سامنے آنے کے بعد جس انداز میں ملک کے کئی شہروں اور صوبوں میں اسکولوں اور کالجوں کے بند کردینے کے اعلانات ہوئے ہیں وہ مشکلات میں گھرے پاکستان کے لیے ایک اور بڑا دھچکا ہیں۔ علاوہ از ایں جس طرح ہزاروں کلومیٹرز پر مشتمل سرحدیں سر بمہر کی جارہی ہیں، تجارتی قافلے روکے جارہے ہیں اور فضائی رابطے منقطع کیے جارہے ہیں، ایسے سب اقدامات خوف اور دہشت میں اضافے کا سبب بنتے جارہے ہیں۔ مثال کے طور پر پاکستان میں پی ایس ایل کے لیے بیسیوں غیر ملکی کھلاڑی اور ان کے عملے کے افراد اس وقت پاکستان میں اس صورت حال سے خوفزدہ ہیں۔ ذرائع کے مطابق میڈیارپورٹس آنے کے بعد جس میں پاکستان میں 2 شہریوں میں کورونا وائرس پایا گیا تھا مختلف ملکوں سے تعلق رکھنے والے کئی کرکٹرز، ٹیکنیکل اور سپورٹنگ عملے نے پی ایس ایل کے مزید میچز کھیلنے سے معذوری ظاہر کی ہے۔ ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ ان کھلاڑیوں کو واضح کیا گیا کہ پاکستان میں اس کے بڑے پیمانے پر پھیلنے کے امکانات نہیں ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ہمارے اہل خانہ پریشان ہیں اور وطن لوٹنے پر زور دے رہے ہیں۔
ان سارے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ خوف و ہراس کی فضا پیدا کرنے کے بجائے اور شہروں کو جیل خانوں میں تبدیل کر دینے کے برعکس بہترین اور مربوط حکمت عملی اختیار کرے۔ اگر ایسے اہم موقع پر بہترین تدبیر اور اعلیٰ تدبر سے کام نہیں لیا گیا تو آنے والے دنوں میں پاکستان خشکی پر ہوتے ہوئے بھی ایک جزیرہ بن کر رہ جائے گا اور پاکستان کے سارے گاؤں دیہات اور چھوٹے بڑے شہر ’’سب جیل‘‘ میں تبدیل ہو جائیں گے لہٰذا پاکستان کورونا وائرس کے خلاف بہترین تدابیر اختیار کرے، دہشت نہ پھیلائے تاکہ عوام پورے سکون کے ساتھ اپنے اپنے امور انجام دے سکیں۔