مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے

432

 جب نام ترا لیجیے تب چشم بھرآوے
اس زندگی کرنے کو کہاں سے جگر آوے
صاحبو! میر صاحب کا یہ شعر سامنے آتا ہے تو بحیرہ عرب کے ساحل پر آباد، بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے رحم وکرم پر سانس لیتی ریاست کا شہر کراچی یاد آنے لگتا ہے۔ کچھ ہی عرصے پہلے کی بات ہے جب یہ شہر خون سے شرابور، وارداتوں کی کثرت اور ان میں چھپے اسرار پر حیران اور ششدر رہتا تھا۔ کراچی میں ہو کیا رہا ہے؟ سب کے ہونٹوں پر ایک ہی سوال ہوتا تھا حالانکہ سب جانتے تھے سب پہچانتے تھے لیکن انجان بنے رہنے ہی میں عافیت کے سامان تھے۔ کراچی کی دگرگوں حالت کے جو ذمے دار تھے، الطاف حسین ایجنسیوں کو قصور وارٹھیراتے تھے۔ ابتداً تو ہم ایجنسیوں کا مطلب سمجھنے سے قاصر تھے۔ تب ایم کیو ایم کے احباب کان میں سرگوشی کرتے ہوئے وضاحت کرتے تھے ’’بھئی ایجنسیوں سے مراد ہے خفیہ ایجنسیاں۔۔ سی آئی اے، آئی ایس آئی، آئی بی وغیرہ جنہوں نے آپس کی لڑائی میں کراچی کو میدان جنگ بنا رکھا ہے‘‘۔ پھر رخ ایم کیو ایم کے متحارب گروہوں کی طرف مڑ گیا۔ الطاف بھائی کے علاقوں میں ہونے والے ہر قتل کا ذمے دار حقیقی کو ٹھیرایا جاتا تھا اور حقیقی کی راجدھانی میں ہونے والی ہر درندگی الطاف بھائی کے کھاتے میں چلی جاتی تھی۔ دہشت گردی کی جنگ آغاز ہوئی تو امریکی ایجنٹ، را کے ایجنٹ، افغان ایجنٹ، طالبان اور نہ جانے کس کس کو کراچی کے حالات میں ملوث سمجھا جانے لگا۔ ان دنوں پولیس، رینجرز، فوج کراچی کے شہریوں کی زبان پر ان ہی کا تذکرہ رہتا تھا۔ بارے خدا یہ معاملات دبے۔
اب کراچی میں اس طرح کے خونیں گروہ تو نہیں ہیں لیکن کراچی اب بھی بے یار ومددگار ہے۔ بے آسرا پر یشانیوں میں گھرا ہوا۔ اُبلتے ہوئے گٹر، نس نس میں دوڑتا فضلہ، ٹوٹی سڑکیں، کچرے کے ڈھیر، دھول، مٹی اور بد انتظامی۔ ایک یتیم شہر جس کی ذمے داری لینے پر کوئی تیار نہیں۔ اس ماہ 16فروری اتوار کی شام کراچی کے علاقے کیماڑی میں اچانک بدبو دار زہریلی گیس پھیلنا شروع ہوگئی جس سے علاقے میں بے چینی اور خوف وہراس پھیل گیا۔ خبریں آنے تک دم گھٹنے سے سات افراد جاں بحق جب کہ پچاس سے زائد کی حالت بگڑ گئی۔ کیماڑی اور اس سے متصل علاقوں سے دو گھنٹوں میں اسپتال لائے جانے والے افراد کی
تعداد 60 سے زیادہ تھی۔ متاثرہ افراد کو سانس لینے میں تکلیف، الٹیوں اور پیٹ میں درد کی شکایت تھی۔ بیش تر کی حالت ابتر تھی۔ ابتداً جیکسن پولیس کی طرف سے کسی وائرس کو واقعات کا ذمے دار قرار دیا گیا۔ کیماڑی کی بندرگاہ میں کام کرنے والے مزدوروں کا خیال تھا پورٹ پر چین سے آنے والے ایک بحری جہاز پر لدے کیمیکل سے خارج ہونے والی گیس واقعات کا سبب ہے۔ بہرحال کوئی بھی واقعے کی حتمی وجہ بتانے سے قاصر تھا۔ 18فروری کو بی بی سی کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ گیس سے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 14ہوگئی ہے۔ 250 کے قریب افراد متاثر ہوئے۔ اس جدید دور میں بھی گیس کی نوعیت اور پھیلنے کی وجوہات کا علم نہ ہوسکا۔ یہ تعین بھی نہ ہوسکا کہ گیس کا اخراج کہاں سے ہوا۔ بہرحال چار روز گزر جانے،14افراد کی ہلاکت اور پانچ سو سے زائد افراد کے متاثر ہونے کے بعد حکام کی طرف سے امریکی سویابین کو کلین چٹ دی گئی کہ اس کی آف لوڈنگ کے دوران گیس کا اخراج ہوا۔
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے اس معاملے میں وزارت صحت کو نااہل قرار دیتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت کو کوئی سمجھانے والا نہیں۔ وزارت صحت آگ سے کھیل رہی ہے۔ انہیں اندازہ نہیں کہ کیا کررہے ہیں۔ حکومت اسی طرح کام کرے گی تو لوگ پتھر ماریں گے۔ اس دوران جا معہ کراچی کی رپورٹ سامنے آئی کہ سویابین کے ذرات کے فضا میں پھیلنے کی وجہ سے سیکڑوں افراد متاثر ہوئے اور 14جاں بحق ہوئے۔ اس رپورٹ کے سامنے آنے کے بعد صوبائی حکومت تو مطمئن ہوکر بیٹھ گئی لیکن وفاقی وزیر علی زیدی نے جامعہ کراچی کی رپورٹ کو بکواس قرار دے دیا۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے مرکزی جنرل سیکرٹری ڈاکٹر عظیم کا کہنا تھا کہ سویابین یا کوئلے کے ذرات اتنے مہلک نہیں ہیں کہ جن کی وجہ سے اموات واقع ہوسکیں سوائے اس کے کہ ان میں کوئی کیمیکل ملا ہوا ہو۔ ڈاکٹر عبد الغفور شورو کا کہنا ہے کہ اگر لوگوں کی اموات سویابین کے ذرات پھیلنے سے واقع ہوئی ہے تو کیا وہ جہاز جس سے سویابین آف لوڈ کی جارہی تھی اس کا عملہ یا مزدور بھی متاثر ہوئے؟ اگر نہیں تو اس کا مطلب ہے کہ وجہ کچھ اور بھی ہوسکتی ہے۔ ڈاکٹر قیصر سجاد کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے پاکستان میں کسی بھی مسئلے پر سنجیدگی دکھانے کے بجائے تمام ادارے اور حکومتیں ایک دوسرے پر ذمے داری ڈالنے لگتے ہیں۔ مل بیٹھ کر مسئلے کے بارے میں جاننے اور سنجیدہ تحقیق کی کوئی روایت ہی نہیں ہے۔ موجودہ مسئلے پر بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ وفاقی، صوبائی اور بلدیاتی حکومتوں کو کیماڑی سانحے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے مل بیٹھ کر مشترکہ تحقیق کرنی چاہیے۔ معاملہ یہ ہے کہ کراچی پورٹ کا علاقہ وفاقی حکومت کے تحت آتا ہے جب کہ جس علاقے میں انسانی جانوں کا زیاں ہوا ہے، وہ سندھ حکومت کا علاقہ ہے۔ وفاقی حکومت صوبائی حکومت کو مورد الزم ٹھیرا رہی ہے جب کہ صوبائی حکومت وفاقی حکومت کو ذمے دار سمجھتی ہے۔ وفاقی یا صوبائی کوئی حکومت ذمے داری محسوس کرتے ہوئے تحقیقات اور قصور واروں کا تعین کروانے کے لیے تیار نہیں۔
جمہوری وفاقی نظام اختیارات کی تقسیم کا نظام ہے۔ حکومت وفاقی ہو یا صوبائی کسی بھی معاملے سے فرار اور حل نہ کرنے کی صورت میں یہ جواز دیتی ہے کہ مسئلے کو مکمل طور پر دیکھنے اور حل کرنے کے لیے درکار وسائل اور صلاحیتوں سے وہ محروم ہے۔ وفاقی حکومت صوبائی حکومت سے کہتی نظر آتی ہے کہ مسئلہ مذکورہ اس کی ذمے داری ہے اور صوبائی حکومت مسئلے کی ذمے داری وفاقی حکومت کی طرف منتقل کرتی دکھائی دیتی ہے۔ مسئلہ معلق ہوکر رہ جاتا ہے۔ نہ وفاقی حکومت حل کرتی ہے اور نہ صوبائی حکومت۔ اس کے برعکس اسلام کے طرز حکمرانی میں صوبے بجائے خود حکومت نہیں ہوتے بلکہ خلیفہ کے ماتحت انتظامی یونٹ ہوتے ہیں۔ صوبے کا والی یا گورنر خلیفہ کا نامزد کردہ ہوتا ہے۔ کسی بھی صوبے میں ہونے والے کسی بھی واقعے کی ذمے داری صرف اس صوبے کے گورنر کی نہیں ہوتی بلکہ ریاست کے حکمران یعنی خلیفہ کی ذمے داری ہوتی ہے۔ اگر صوبے کا والی یا گورنر کسی بھی معاملے میں غفلت یا کوتاہی کا مرتکب ہوتا ہے تو خلیفہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ معاملہ میرے دائرہ کار سے باہر ہے اور گورنر کی ذمے داری اور جوابدہی ہے۔ عدم کارکردگی یا غفلت اور کوتاہی کے نتیجے میں خلیفہ صوبے کے والی یا گورنر سے جواب طلبی کرسکتا ہے اور اسے برطرف یا عہدے سے معزول کرسکتا ہے۔ اس طرح کسی بھی مسئلے کے بارے میں صوبے کا والی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ میرے دائرہ کار میں نہیں بلکہ خلیفہ کی ذمے داری ہے۔ سیدنا عمر ؓ نے اسی لیے ریاست کے دارالخلافہ مدینے میں بیٹھ کر کہا تھا کہ دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی پیاس سے مرگیا تو عمر ؓ سے پوچھا جائے گا۔ ٹڈی دل کا مسئلہ ہو یا مہنگائی اور امن وامان کا یہی صورت نظر آتی ہے۔ ٹڈی دل کا حملہ بلوچستان سے شروع ہوا تھا اور سندھ اور کے پی کے تک پھیل گیا لیکن کوئی ذمے داری لینے پرتیار نہیں۔ مہنگائی کا مسئلہ ہو تو صوبائی حکومت ایک طرف ہاتھ جھاڑ کر کھڑی ہوجاتی ہے کہ بجلی گیس اور پٹرول کی قیمتیں ہم بڑھاتے ہیں کہ وفاقی حکومت، قرضے ہم لیتے ہیں کہ وفاقی حکومت، شرح سود کا تعین ہم کرتے ہیں کہ وفاقی حکومت؟؟ اور عوام قبر میں پڑے سوچتے ہیں مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے؟؟