دہشت گردی کی تعریف آخر ہے کیا؟

662

مظفر ربانی
گزشتہ دنوں ایران کی سرزمین پر امام خمینی ائر پورٹ سے ٹیک آف کے چند منٹوں بعد جب جہاز کم و بیش آٹھ ہزار فٹ کی بلندی پر پہنچا تو کریش ہوگیا پہلے مختلف حوالوں سے رائے زنی کی جاتی رہی، مگر سب سے پہلے امریکی جریدے نیوز ویک نے یہ خبر بریک کی کہ جہاز میں کوئی فنی خرابی نہیں تھی بلکہ اس کو میزائل کے ذریعے تباہ کیا گیا ہے اس خبر نے تہران سمیت ساری دنیا میں ہلچل مچا دی تہران کا فوری رد عمل یہ تھا کہ ایسا کچھ نہیں ہے، جہاز مغرب کی طرف جارہا تھا پھر اس نے امام خمینی ائرپورٹ کی طرف مڑنے کی کوشش کی اس نام نہاد وضاحت کی ابھی بازگشت تھمی بھی نہیں تھی کہ کینیڈا نے جس کے مسافر ایران کے مسافروں کے بعد سب سے زیادہ یعنی 63 کینیڈین سوار تھے نے ایک ویڈیو جاری کردی جو غالباً سٹلائٹ سے لی گئی تھی کہ ایک میزائل زمین سے فضا میں بلند ہوتا ہے اور سیدھا جا کر جہاز کو لگ جاتا ہے جس سے چشم زدن میں جہاز مکمل تباہ ہو جاتا ہے اس کی بھی ایران نے تردید کرنی چاہی مگر ناکام رہا پھر برطانیہ امریکا نے بھی یہ بات زور دے کر کہی کہ نہیں جہاز کو واقعی میزائل لگا ہے اب ایران کے لیے نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن کے مصداق اپنے پرانے بیانیے کو واپس لینا پڑا اور اس کو تسلیم کرنا پڑا کہ انسانی غلطی کی وجہ سے میزائل چلا۔ ادھر ایران کے صدر آیت اللہ خامنہ ای نے اپنی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے احکامات جاری کیے کہ ذمے داران کے خلاف سخت تادیبی کاروائی کی جائے اور یہ کہ ایسا میکنزم بنایا جائے کہ آئندہ ایسے واقعے کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔ ویسے ایرانی وزیر خارجہ کا بیان ضرور عذر لنگ معلوم ہوتا ہے کہ امریکا کی جنگی حکمت عملی کی وجہ سے ایسا ماحول پیدا ہوگیا تھا کہ ان کے میزائل سسٹم کو چلانے والا عملہ اس کو بھی کوئی جنگی جہاز سمجھ بیٹھا اور (بدحواسی) میں میزائل فائر کردیا۔ چند دن پہلے جب امریکا ایران کشیدگی عروج پر تھی تو ڈونلڈ ٹرمپ نے دھمکی دی تھی کہ ایران کے 52 مقامات کو نشان زدہ کردیا گیا ہے جس کے جواب میں تہران نے جواب دیا کہ مسٹر ٹرمپ 250 کا عدد بھی یاد رکھنا سب جانتے ہیں کہ یہ اعداد کا کھیل کیا تھا۔ بہر حال امریکا نے ایران کے جہاز جس میں 250 معصوم مسافر سوار تھے نشانہ بنایا تھا اب ایران نے 176 معصوموں
سے بھرے جہاز کو نشانہ بنا کر سارے مسافروں کو ابدی نیند سلا دیا۔ حیرت انگیز حقیقت یہ ہے کہ نہ تو امریکا کی جانب سے 250 مسافروں سے بھرے ہوئے جہاز کو مار گرانے پر دنیا میں کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی اور نہ ہی 176 معصوم مسافروں کو مار دینے پر ایران کے خلاف دنیا بھر سے کہیں سے بھی کوئی انگلی تک نہ اٹھی سب نے چپ سادھ لی ہے یہاں تک کہ جن ممالک یعنی یوکرین فرانس برطانیہ وغیرہ جن کے شہری اس حادثے میں ہلاک ہوئے وہ بھی لب کشائی سے گریز کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر دہشت گردی کی تعریف ہے کیا؟ امریکا میں ایک مسلمان نوجوان کو اس لیے پکڑ لیا جاتا ہے کہ وہ دہشت گردی کا سوچ رہا تھا پاکستان کی شہری حافظہ ڈاکٹر عافیہ صدیقئی کو امریکا کی کینگرو عدالت نے 86 سال کی سزائے قید صرف اس ’’جرم‘‘ کی پاداش میں دی کہ اس نے افغانستان میں قید کے دوران امریکی فوجیوں پر بندوق تان لی تھی پہلا اور بڑا سوال تو یہ ہے کہ پہلے اس بات کا حساب دیا جائے کہ اس معصوم لڑکی کو گرفتار کر کے بگرام جیل تک پہنچایا کس نے اور کس جرم کی بدولت اس کو پاکستان سے اغوا کر کے بگرام جیل میں بغیر کسی مقدمے کے قید رکھا اغوا ایک جرم، بلا عدالت جیل میں رکھنا دوسرا جرم، بغیر پاکستان کو بتائے اس کی شہری کو جیٹ طیارے میں بٹھا کر پہلے پاکستان پھر افغانستان سے امریکا بغیر پاسپورٹ ٹکٹ اور سفری دستاویزات کے امریکا میں انٹری بھی مقامی اور عالمی قوانین کی دھجیاں اڑانے کے جرائم کا حساب کون دے گا۔۔
کوئی امریکی اگر اسکول میں فائرنگ کرکے دسیوں طلبہ و طالبات اور اساتذہ کو گولیوں سے بھون کر موت کے گھاٹ اتار دے چاہے اپنی چھت پر چڑھ کر 69 امریکیوں کو براہ راست گولیاں مار کر موت کی نیند سلادے، بھارت میں مسلمانوں کو دن رات موت کے گھاٹ اتارا جاتا
رہے، کشمیر میں گزشتہ 30 سال میں 130 ہزار کشمیریوں کو اپنے ہی وطن میں گولیاں ماری جائیں، ٹارچر سیلوں میں ظلم و درندگی اور بد ترین تشدد کر کے ابدی نیند سلا دیا جائے، فلسطین میں ستر 70 سال سے فلسطینی مسلمانوں کا قتل عام کیا جاتا رہے، صابرہ اور شتیلا کے کیمپ میں محبوس عورتوں، مردوں، بچوں کو بمباری کر کے شہید کیا جائے، حال ہی میں شام میں مسلمانوں پر ڈیزی کٹر بموں سے بستی کی بستیاں اجاڑ دی جائیں اور کروڑوں مسلمانوں کو ہجرت پر مجبور کردیا جائے، عراق کی سرزمین اس کے اپنے باسی مسلمانوں پر ہی تنگ کردی جائے، پندرہ سال میں لاکھوں عراقیوں کو شہید کر دیا جائے، چین میں ایغور مسلمانوں کو عقوبت خانوں میں انسانیت سوز تشدد کا نشانہ بنایا جائے، ان کو دین اسلام کو چھوڑنے پر مجبور کیا جائے، کہیں بھی دہشت گردی کی صدا سنائی نہیں دیتی شاید اس لیے کہ ان جرائم کا ارتکاب کرنے والے مسلمان نہیں بلکہ مسلمانوں کے خلاف کوئی کارروائی بھی دہشت گردی کے زمرے میں نہیں آتی۔ لیکن اگر کوئی مسلمان جو دین پر کامل یقین رکھتا ہو اور دینی احکامات پر عمل بھی کرتا ہو غلطی سے کوئی کام کر بیٹھے تو کافروں سے پہلے ہی اپنے ہی ہم وطن اور خاص طور پر اس کو یک زبان ہو کر دہشت گرد قرار دینے لگتے ہیں بلکہ اس کو دہشت گرد قرار دینے میں سبقت لے جانے کی بھی کوشش کرتے ہیں تاکہ مغرب کو بتایا جائے کہ ہم تمہارے سب سے زیادہ بہی خوا ہ ہیں۔
یہی نہیں بلکہ خود ایران میں مساجد بنانے پر پابندی ہے اور جو تاریخی مساجد ہوا کرتی تھیں ایک ایک کرکے سب کو شہید کر دیا گیا اور سنی مسلمانوں کو شیعہ امام کی اقتدا میں نماز پڑھنے پر مجبور کیا جاتا ہے وہاں سنی مسلمانوں کو کوئی سیاسی حقوق حاصل نہیں ہیں وہ الیکشن نہیں لڑ سکتے، سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے سکتے، یہی صورتحال شام میں ہے جہاں چن چن کر سنی مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا لاکھوں بے گناہ اور معصوم سنی تو مارے گئے مگر شیعوں کی ہلاکت کی تعداد شاید آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ فلسطین کی صورتحال یہ ہے کہ جب اسرائیل کو بہیمانہ بمباری کا موڈ ہوتا ہے تو غزہ کی پٹی یا کسی بھی فلسطینی مقام سے حزب اللہ دو چار راکٹ داغ دیتی ہے پھر اسرائیل کو بہانہ مل جاتا ہے اور بمباری شروع ہو جاتی ہے اس پر جب دنیا شور مچاتی ہے تو امریکا بہادر کہتا ہے کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ یہ چو مکھی دیکھا جائے تو دنیا بھر کے سنی مسلمانوں ہی کے خلاف لڑی جا رہی ہے۔ ایران سے شام تک جس کے بیچ میں عراق بھی آجاتا ہے گریٹر شیعہ اسٹیٹ کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے میں ایران کی پشت پناہی کھلے بندوں امریکا برطانیہ اور اسرائیل کر رہے ہیں۔ دنیا بھر میں سنی مسلمانوں کے خلاف سیاسی، مذہبی، معاشی، اقتصادی اور معاشرتی دہشت گردی کی جا رہی ہے مگر اقوام عالم میں کوئی بھی اس کو دہشت گردی کے زمرے میں لانے کی جرات نہیں کرتا لیکن اگر کوئی سنی مسلمان افغانستان، بھارت، امریکا، برطانیہ، فرانس یا اسرائیل میں کوئی معمولی سے واردات کردے تو ساری دنیا کے میڈیا دہشت گردی کا راگ الاپنے لگتے ہیں۔ امت مسلمہ کو اس مقام پر مل بیٹھ کر سوچنا ہوگا کہ آخر اس ذہنیت کا سد باب کیسے کیا جائے؟ اور دنیا کے ناخدائوں کو بھی بتانا پڑے گا کہ آخر یہ دہشت گردی کی تعریف ہے کیا؟