سرکاری حراستی مراکز کیوں؟

507

حکمرانوں کا بنیادی کام آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے مملکت کا نظام چلانا ہے اور آئین و قانون کی بالادستی کو ہر صورت میں ممکن بنانا ہے ۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ حکمراں ہی اب آئین اور قانون کے خلاف اقدامات کرنے میں سب سے آگے ہیں ۔ اس کی ایک بڑی مثال آئین اور قانون سے ماورا حکومت کے زیر انتظام حراستی مراکز ہیں جہاں پر بلا مبالغہ ہزاروں افراد بلا فرد جرم عاید کیے برسہا برس سے قید ہیں۔ اس بارے میں بارہا کہا جاچکا ہے کہ اگر ان زیر حراست افراد نے کوئی جرم کیا ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے اور ان کے جرم کے مطابق انہیں قرار واقعی سزا دی جائے اور اگر انہوں نے کوئی جرم نہیں کیا ہے تو انہیں فوری طور پر رہا کرکے ، انہیں حراست میں رکھنے والے افراد کے خلاف کارروائی کی جائے ۔ اگر حکومت یا ان افراد کو حراست میں رکھنے والے افراد کو عدالتی نظام پر یقین نہیں ہے تو بہتر ہے کہ عدالتی نظام کو بہتر بنایا جائے نہ کہ کسی بھی فرد کو بلا کسی جرم کے قید رکھا جائے ۔ یہ سیدھی سی بات سمجھنے کے لیے نہ تو حکومت تیا ر ہے اور نہ ہی ان افراد کو حراستی مراکز میں قید رکھنے والے ادارے ۔ اب تو محسوس ہونے لگا ہے کہ ادارے حکومت سے زیادہ طاقتور ہوگئے ہیں اور حکومت و عدالت ان کے سامنے بے بس ۔ روز عدالت میں ان زیر حراست افراد کے اہل خانہ آہ و بکا کرتے ہیں مگر عدالت بھی انہیں کوئی ریلیف دینے سے مجبور ہے ۔ حکومت کے نمائندہ اٹارنی جنرل عدالت میں ان حراستی مراکز کے بارے میں ایسی ایسی تاویلیں پیش کرتے ہیں کہ ایک عام آدمی بھی حیران رہ جائے ۔ پہلے قدم کے طور پرکم از کم ان حراستی مراکز میں قید تمام افراد کی ایک فہرست تو عدالت میں پیش کی جائے تاکہ ان افراد کو جعلی پولیس مقابلوں میں مارے جانے کا خوف ختم ہوسکے ۔ان افراد کو ان کے اہل خانہ سے ملنے کی سہولت بھی فراہم کی جانی چاہیے۔ جو سہولتیں حکومت نے بھارتی جاسوس کلبھوشن کو دی ہیں ، کم از کم وہی سہولتیں ان پاکستان شہریوں کو بھی دی جائیں جنہیں کسی جواز کے بغیر حراست میں رکھا ہوا ہے۔