پاکستان کی جنگ کون لڑے گا؟

563

 اصول طور پر یہ سوال ہی غلط ہے کہ پاکستان کی جنگ کون لڑے گا؟ کیوں کہ پاک فوج کے سپاہی سے لے کر جنرل تک اور عام شہری سے لے کر وزیراعظم تک ہر ایک پاکستان کے دفاع اور بقا کے لیے جنگ لڑنے پر ہمہ وقت تیار اور چوکس ہے۔ دشمن جس راستے سے بھی آئے گا زخم چاٹتا اور دانت گنتا ہوا واپس جائے گا۔ پاکستانی عوام کا جذبہ جہاد اور پاک فوج کی ناقابل تسخیر قوت دشمن اور اُس کے حواریوں کے لیے واضح پیغام ہے کہ پاکستان کے خلاف جارحانہ عزائم رکھنے والوں کے ناپاک ارادوں پر ہمیشہ خاک پڑی رہے گی۔ پاکستان اِن شاء اللہ مضبوط اور محفوظ رہے گا۔ خطے کے امن و سلامتی کے لیے بہتر ہوگا کہ دشمن پاکستان کی حقیقت کو دِل سے تسلیم کرلے اور اِس کی شہ رگ (مقبوضہ کشمیر) پر سے تُرشول اُٹھالے، بصورت دیگر ’’بھارت ماتا‘‘ کو ٹکڑے ٹکڑے ہونے سے کوئی بچا نہیں سکے گا۔
آج کا ’’پاکستان‘‘ یقینا ناقابل شکست ہے مگر اِس کے باوجود دانشمندی اور دوراندیشی کا تقاضا یہ ہے کہ ہمیں اپنے گردو پیش کا جائزہ لیتے ہوئے یہ معلوم کرنا چاہیے کہ بھارت کس طرح سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے میں کامیاب ہوگیا، بغیر جنگ کے بھارت کس طرح سے مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ کرگیا، بھارت کے حالیہ اقدامات کا گہرا تجزیہ کرنا ہوگا، تاریخ کا دوبارہ مطالعہ کرنا ہوگا، اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنا ہوگا، نئی سوچ کے ساتھ نئی منصوبہ بندی اور اسٹرٹیجک پالیسی ترتیب دینا ہوگی تا کہ پاکستان کی جنگ کو بھرپور انداز میں لڑا جاسکے اور مزید یہ کہ اُن تمام چیلنجوں کا سامنا اور مقابلہ کرنا ہوگا جو سامراجی قوتوں کی شرارتوں اور سازشوں کی وجہ سے پاکستان کو درپیش ہیں۔
’’مقبوضہ کشمیر‘‘ جنگ اور جہاد کے بغیر کبھی آزاد نہیں ہوگا، اقوام متحدہ کی تسلیم شدہ قراردادوں، عالمی برادری سے اپیلوں، قومی کانفرنسوں، ریلیوں، دھرنوں اور 100 سے زائد مرتبہ پاک بھارت اعلیٰ سطح کے مذاکرات کا انجام دیکھنے اور سمجھنے کے لیے 72 سال کافی ہیں۔ 65ء کی جیتی ہوئی جنگ اور کارگل کے محاذ پر پیش قدمی کے باوجود ہم مقبوضہ کشمیر کو آزاد نہ کراسکے۔ 71ء کی جنگ ہار گئے اور نتیجے میں مشرقی پاکستان ٹوٹ کر بنگلا دیش بن گیا۔ معاہدہ تاشقند، شملہ سمجھوتا، معاہدہ واشنگٹن اور اعلان لاہور پر ہم نے دستخط کیے، بغلیں بجائیں مگر مقبوضۃ کشمیر کا ایک انچ بھی آزاد نہ کراسکے۔ ہماری ناکام خارجہ پالیسی اور غیر موثر دفاعی پالیسی نے مزید نقصان یہ کیا کہ بھارت نے 5 اگست 2019ء کو ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے آئین کی شق 370 کو منسوخ کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کردیا اور یوں مقبوضہ کشمیر جو پاکستان کی شہ رگ ہے اُسے بھارت کا حصہ قرار دے دیا گیا۔
وزیراعظم، جنرل، سیاستدان اور دینی قیادت مقبوضہ کشمیر پر بھارت کی فوجی جارحیت، قبضے اور آئین میں تبدیلی کے سارے منظر کو دیکھتے رہے، جذبہ خیرسگالی کے یکطرفہ اقدامات کرتے رہے، امن کی درخواستیں کرتے رہے، ایٹمی جنگ کے خطرات سے آگاہ کرتے رہے، عالمی برادری سے اپیلیں کرتے رہے، دوست ممالک کے دارالحکومتوں کے دورے کرتے رہے اور مزید یہ کہ سعودی عرب، چین اور امریکا سے ثالثی کے لیے کردار ادا کرنے کی گزارشات بھی کرتے رہے۔ مگر دوسری جانب مودی سرکار نے اپنا وقت ضائع کیے بغیر مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار دے کر ’’مسئلہ کشمیر‘‘ کے باب کو ہمیشہ کے لیے بند کردیا۔ ’’سقوط ڈھاکا‘‘ بھارت، روس اور امریکا کی سازش اور جارحیت کا نتیجہ تھا، جب کہ ’’سقوط سری نگر‘‘ بغیر کسی جنگ کے محض ایک صدارتی حکم کا نتیجہ ہے کہ جو وزیراعظم نریندر مودی نے تمام تر خطرات کے باوجود اُٹھایا، قیادت اِسی کا نام ہے کہ جو خطرات سے کھیلے اور ان کا سامنا کرے، بزدل ہمیشہ حیلے اور بہانے ڈھونڈتے رہتے ہیں جیسا کہ جنرل نیازی مشرقی پاکستان میں ہتھیار ڈالنے کے بعد زندگی بھر جھوٹی کہانیاں سناتا اور ناقابل قبول جواز بیان کرتا پھرا۔
’’مقبوضہ کشمیر‘‘ کی موجودہ صورت حال کچھ اس طرح سے ہے کہ مقبوضہ وادی کو ایک وسیع جیل میں تبدیل کردیا گیا ہے، ایک کروڑ کے قریب مسلم آبادی پر بھارتی سیکورٹی فورسز کتوں اور بھیڑیوں کی طرح ٹوٹ پڑی ہیں، کرفیو اور کریک ڈائون نے کشمیری مسلمانوں کو آزادی اور موت کے درمیان کھڑا کر رکھا ہے۔ تشدد، اغوا، آبروریزی اور قتل مقبوضہ وادی میں ایک معمول بن چکا ہے، پاکستان سے کشمیر کے مظلوم و محکوم مسلمانوں کو صرف سفارتی اور اخلاقی امداد حاصل ہے، حالاں کہ انہیں فوجی مدد کی ضرورت ہے۔ مگر کوئی ان کی فوجی مدد کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اعلان جنگ کرنے والے تمام بااختیار اور ذمے داران ایک دوسرے کے پیچھے چھپ رہے ہیں، دینی قیادت بھی حکومت سے اپیل کررہی ہے کہ وہ ’’جہاد‘‘ کا اعلان کرے۔ کنٹرول لائن کو عبور کرنے کے لیے ڈیڈ لائن دینے کو کوئی تیار نہیں، سب کو معلوم ہے کہ مقبوضہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے کسی اور کی نہیں، کوئی دوسرا ہماری جنگ نہیں لڑے گا، ہمیں اپنی جنگ خود لڑنا ہوگی، کوئی عالمی ادارہ یا دوست مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرانے کے لیے بھارت کے ساتھ دست و گریبان نہیں ہوگا، ہمیں اپنا ہاتھ بغل سے نکالنا ہوگا، ہمیں خود میدان جنگ میں اُترنا ہوگا۔ مگر شاید ’’قومی قیادت‘‘ نے اِس کا حل یہ ڈھونڈا ہے کہ مقبوضہ کشمیر پر سفارتی بھاگ دوڑ اور الفاظ کی جنگ جاری رکھی جائے تا کہ عوام میں بھرم رہے۔ مزید برآں جنگ کے لیے بھی تیار رہا جائے کہ اگر بھارت آزاد کشمیر پر حملہ کردے تو اُس کا منہ توڑ جواب دیا جاسکے۔ اِس طرح کی پالیسی اور حکمت عملی کا نتیجہ یہ ہوگا کہ مقبوضہ کشمیر کے نہتے عوام اپنے ہاتھوں میں پاکستان کا جھنڈا اُٹھائے شہادت پر شہادت نوش کرتے رہیں گے، پاکستان محض آنسو بہاتا اور انتظار کرتا رہے گا، کشمیری مسلمان اگر بے بس ہو کر خاموش ہوگئے تو ’’مسئلہ کشمیر‘‘ ہی ختم تصور کیا جائے گا اور اگر مقبوضہ وادی میں ردعمل، احتجاج اور مزاحمت جاری رہی تو اِس کا کریڈٹ پاکستان کے حکمران لیتے رہیں گے کہ ’’مسئلہ کشمیر‘‘ ہماری وجہ سے زندہ ہے۔
’’مقبوضہ کشمیر‘‘ پر 72 برس سے بھارت کا فوجی قبضہ تھا جو اب مزید مستحکم ہوگیا ہے۔ فوجی قبضے کو فوجی ردعمل ہی سے توڑا جاسکتا تھا، بندوق کا مقابلہ بندوق سے اور گولی کا جواب گولی ہی سے دیا جاتا ہے، اگر ایسا نہیں ہوگا تو کوئی بھی جارح کبھی کہیں سے انخلا نہیں کرے گا، مقبوضہ کشمیر کے بزرگ رہنما سید علی گیلانی کہتے ہیں کہ پاکستان ہماری فوجی مدد کرے مگر ہم ہیں کہ مظلوم و محکوم کشمیری مسلمانوں کی مدد کرنے کے بجائے افغانستان کے بارڈر پر کھڑے امریکا کی جنگ لڑ رہے ہیں، امریکا نے افغان جنگ میں ہمیں زبردستی گھسیٹ رکھا ہے۔ امریکا براستہ پاکستان 19 برس سے افغانستان پر حملہ آور ہے مگر اب تک وہ فتح حاصل نہ کرسکا، شکست اور شرمندگی امریکا کا تعاقب کررہی ہے، طالبان کے ساتھ مذاکرات کرانے کے لیے امریکا پاکستان پر دبائو ڈالتا رہتا ہے، پاکستانی حکمران بخوشی امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات کرانے کے لیے ’’سہولت کار‘‘ بن جاتے ہیں، جب کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور وزارتِ خارجہ کے پاس یہ بہترین موقع تھا کہ وہ وائٹ ہائوس اور پینٹا گان پر واضح کردیتے کہ اگر امریکا ’’مسئلہ کشمیر‘‘ پر ثالث نہیں بنے گا تو پاکستان بھی افغان امن عمل میں سہولت کار بننے سے معذرت کرتا ہے۔ اتفاق سے مودی اور ٹرمپ کی غلطی کی وجہ سے افغان بحران اور مسئلہ کشمیر ایک سطح پر آگئے تھے، ہمیں وقت سے فائدہ اُٹھانا چاہیے تھا، ٹرمپ کی پریشانی کو کم کرنے کے بجائے اُسے جوں کا توں رہنے دینا چاہیے تھا مگر غلام حکمرانوں کے لیے امریکی صدر کی ایک فون کال ہی کافی ہے کہ جس کے بعد ہم ناشتہ کیے بغیر امریکی صدر کے حکم پر عمل درآمد کے لیے کام شروع کردیتے ہیں۔ ایران اور سعودی عرب کے مصالحتی دورے کہ جن میں سہولت کار کا کردار ادا کیا جارہا ہے یہ بھی امریکی ڈکٹیشن کا حصہ ہیں ورنہ کیا وزیراعظم عمران خان یہ نہیں جانتے کہ مقبوضہ کشمیر کے خلاف بھارت کے حالیہ اقدامات کو واپس لینے اور سیکورٹی فورسز کے کریک ڈائون کو رکوانے کے لیے اب تک تہران، ریاض اور واشنگٹن نے نیو دہلی سرکار کے پاس اپنا وزیرخارجہ تک بھیجنا ضروری نہیں سمجھا جو بھارتی وزیراعظم کو ان دوست ممالک کے ردعمل سے آگاہ کرتا، یعنی ہماری ’’سہولت کاری‘‘ پاکستان کے مفاد میں کم سے کم نتائج بھی نہ دے سکی جو اِس بات کا ثبوت ہے کہ افغانستان کے فوجی محاذ سے مقبوضہ کشمیر تک اور ایران سے سعودی عرب تک کے سفارتی محاذ پر ہم ہر جگہ امریکی ایجنڈے اور مفادات کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ پاکستان کا ’’قومی مفاد‘‘ قومی قیادت کے بیانات تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔
بہرحال مورخ دیکھ رہا ہے اور مظلوم و محکوم کشمیری مسلمان یہ کہہ رہے ہیں کہ جنہیں امریکا کی جنگ لڑنے سے فرصت نہیں وہ پاکستان کی شہ رگ (مقبوضہ کشمیر) کو آزاد کرانے کی جنگ کب اور کہاں لڑیں گے؟۔ اِس سوال کے جواب کا سری نگر کے مسلمانوں کو شدت سے انتظار ہے۔