طالبان تحریک اور حکومت (قسط 5)۔

531

جلال نورزئی

دنیا نے طالبان کو قریب سے دیکھنے، سمجھنے اور ان سے تعلقات استوار کرنے کی سرے سے کوشش ہی نہیں کی۔ ان کا ہر طرح سے مقاطعہ کیے رکھا اور ان کے خلاف گمراہ گن تاثر پھیلایا گیا۔ اس پورے عرصے میں طالبان کو سنگین مسائل کا سامنا رہا۔ افغان عوام زندگی کے مشکل دور سے گزر رہے تھے۔ واشنگٹن نے 1999ء میں افغانستان پر اقتصادی پابندیوں کا اعلان کر کے افغان عوام کی زندگی مزید اجیرن بنا دی۔ پندرہ اکتوبر 1999ء کو ملک کی واحد ائر لائن آریانا کی بیرونی پروازوں پر بھی پابندی عائد کی گئی۔ ربانی کی حکومت نے ان سامراجی فیصلوں و اقدامات کی مکمل حمایت کی بلکہ مطالبہ کیا کہ امریکا پاکستان پر بھی اس نوعیت کی پابندیاں عائد کرے۔ ایران اور بھارت نے بھی ان پابندیوں کی حمایت کی۔ یوں سلامتی کونسل کی جانب سے چودہ نومبر 1999 کو افغانستان پر اقتصادی اور معاشی پابند یوں کا اعلان ہوا۔ جس کا مطالبہ اس عالمی فورم سے امریکا نے کر رکھا تھا۔ ان ناروا اور معاندانہ اقدمات کے خلاف پورے افغانستان میں زبردست عوامی احتجاج ہوا۔ افغان عوام نے کابل میں واقع اقوام متحدہ کے دفتر پر دھاوا بول دیا۔ ملا محمد عمر نے عوام سے مشتعل نہ ہونے کی اپیل کی، تب جا کر احتجاج کا یہ سلسلہ رکا۔ اکیس اگست 1999 کو ملا محمد عمر کی رہائش گاہ کے ساتھ طاقتو ر بم دھماکا کرایا گیا۔ جس میں طالبان حکومت کے خاص لوگ جاں بحق ہو گئے۔ مرنے والوں میں ملا محمد عمر کے دو بھائی ملا عبدالخالق اور ملا عبدالسلام بھی شامل تھے۔ گھر کے افراد بری طرح زخمی بھی ہو گئے تھے۔ یہ حملہ امریکی سی آئی اے کے ایماء پر کرایا گیا۔ اور وہی لوگ ملوث تھے جن کی امریکا نے طالبان کے خلاف پرورش کی تھی۔ طالبان کی تحقیقات میں حامد کرزئی بھی دھماکے کی منصوبہ بندی میں ملوث پایا گیا۔ ان ساری زیادتیوں اور ناروا سلوک کے باوجود طالبان اپنے مقصد اور دنیا سے تعلقات کی استواری کی برابر تدبیر اور سعی کرتے رہے۔
ملک کے اندر مثالی امن قائم کر دیا۔ جرائم اور لاقانونیت کا یکسر خاتمہ کر دیا گیا۔ ملک کو اسلحہ سے پاک کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا عوام اور جنگی سردار طرح طرح کے ہتھیار سے لیس تھے۔ پیچیدہ ہتھیار، جنگی جہاز، ہیلی کاپٹر، اسٹنگر میزائل، ٹینک اور توپیں ان کے پاس تھیں۔ اسلحہ سمیٹنے کی کوششیں اقوام متحدہ نے بھی کی۔ یہ ہتھیار خریدنے کے لیے اقوام متحدہ نے 1992ء میں 3بلین ڈالرز مختص کیے تھے پھر بھی یہ ادارہ کامیاب نہ ہوسکا۔ لیکن طالبان نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔ اسی طرح پوست کی فصل ممنوع قرار دی۔ ملا محمد عمر کے جاری ہونے والے فرمان کے بعد کسی کو پوست کی کاشت کی مجال نہ ہوئی۔ حالانکہ یہ کام شاہ ظاہر شاہ اور سردار دائود خان اور بعد کی حکومتیں بھی نہ کر سکی تھیں۔ طالبان نے 2000 تک پورے افغانستان کو اس فصل سے پاک کر دیا۔ محض بدخشان کے اندر کاشت بدستور ہوتی رہی جو طالبان کی عملداری میں نہ تھا۔ اس وقت تک دنیا کی 75 فی صد پوست کی کاشت افغانستان میں ہوتی تھی۔ اقوام متحدہ کے ڈرگ کنٹرول پروگرام (UNDCP) کے اُس وقت کے سربراہ ’’برنارڈایذ‘‘ نے طالبان کی اس کامیابی کا برملا اعتراف کرتے ہوئے فخریہ کہا کہ طالبان نے پوست کی کاشت کو صفر کے ہندسے پر پہنچا دیا۔ حالاں کہ طالبان کو اس مقصد کے لیے بیرونی دنیا سے امداد بھی میسر نہ تھی، نہ ہی اقوام متحدہ کو افغانستان کے زمینداروں کے لیے متبادل زراعت اور روزگار کی فراہمی کی توفیق ہوئی۔ طالبان کی حکومت نے چین سے ہاتھ ملایا، انہیں روس سے بھی عداوت نہ تھی۔ ایران کی عداوت بھی مخفی نہ تھی۔ گو یا روس، ایران، سعودی عرب اور امریکا کا طالبان کے خلاف قدر مشترک تھا۔ ایران اور طالبان حکومت کے درمیان کشید گی میں سعودی عرب نے طالبان سے قطعی تعاون نہیں کیا۔ پاکستان کا مسئلہ یہ تھا کہ انہیں ربانی وغیرہ کی پالیسیوں اور اقدامات نے طالبان کی حکومت تسلیم کرنے پر مجبور کر دیا۔ وہ اس طرح کہ جب طالبان نے ہرات فتح کیا تو اس پر برہان الدین ربانی اور احمد شاہ مسعود کی حامیوں نے کابل میں قائم پاکستان کے سفارت خانے پر حملہ کر کے نذر آتش کر دیا۔ اس حملے میں سفارت خانے کا ایک اہلکار جاں بحق اور چند زخمی ہو گئے۔ جس کے بعد پاکستان نے اپنا سفارت خانہ بند کر دیا۔ یوں برہان الدین ربانی کی حکومت سے تعلقات منقطع کر دیے گئے۔ رپورٹس کے مطابق سفارت خانے پر حملہ بھارت کی شہ پر کیا گیا تھا۔ اس واقعے سے قبل پاکستان کا طالبان کے ساتھ تعلق تھا نہ ان کی کسی طرح کی امداد کی تھی۔ حالانکہ خود برہان الدین ربانی، عبدالرب رسول سیاف وغیرہ نے قندھار میں وار لارڈز اور جرائم پیشہ گروہوں کے خلاف طالبان کی کاروائیوں کی حمایت اور ستائش کی تھی۔ اور جب طالبان امن کے قیام کی غرض سے دوسرے صوبوں کی جانب بڑھے تو ان رہنمائوں نے پاکستان پر ان کی کمک کا الزام لگایا۔ یعنی پاکستان اپنے سفارت خانے پر حملے سے قبل ربانی کی حکومت ہی کو افغانستان کی نمائندہ حکومت تسلیم کرتا تھا۔ چناںچہ دنیا کی اس بیگانگی اور کم ظرفی کے علی الرغم طالبان ہمسایہ ممالک سے تعلقات کی مساعی کرتے رہے۔ رفتہ رفتہ ان کے چین سے مراسم بڑھتے اور مستحکم ہوتے گئے۔ چین کے ماہرین کا وفد افغانستان گیا، ملا محمد عمر سے بھی ملاقاتیں ہوئیں۔ چین نے افغانستان میں سرمایہ کاری کے معاہدے کیے۔ ملا محمد عمر نے اپنی وزارت خارجہ کو چین سے سیاسی، معاشی اور اقتصادی روابط پر توجہ دینے کی ہدایت دے دی تھی۔ ملا محمد عمر نے اس ضمن میں یہ کہا تھا کہ چین ا فغانستان کا اہم ہمسایہ ملک ہے۔ اور روس اور امریکا کے مقابل چین افغانستان کے لیے بہتر انتخاب ہے۔ ملا محمد عمر نے یہ بھی کہا تھا کہ چین افغانستان کے حوالے سے استعماری اور سامراجی پالیسیاں نہیں رکھتا۔ چناںچہ طالبان حکومت کے وفود بھی چین کے دورے پر گئے۔ البتہ ان دوروں کی تشہیر نہیں کی گئی۔ امریکا کی طالبان سے مخاصمت کی ایک وجہ چین سے معاشی اور اقتصادی قربت بھی تھی۔ افغانستان پر امریکی قبضہ کے بعد طالبان نے 2006ء میں پھر سے چین سے روابط قائم کر لیے۔ قطر دفتر کی فعالیت کے بعد چین نے بھی ان روابط کو تسلیم کر لیا۔ ملا محمد عمر کی رحلت کے بعد نئے امیر ملا اختر منصور بھی متحرک رہے۔ جنہوں نے چین سمیت روس کا بھی خفیہ دورہ کیا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ 21 مئی 2016ء کو امریکی ڈرون حملے کا نشانہ بنائے گئے۔ اور یہ حملہ بلوچستان کے ضلع نوشکی میں احمد وال کے مقام پر کیا گیا۔ طالبان کے بعض اہم رہنما کہتے ہیں کہ اس قتل میں ہمسایہ ملک ملوث ہے۔ تاہم انہوں نے اُس ہمسایہ ملک کا نام لیا نہیں ہے۔
طالبان کی حکومت نے ہائی جیک ہونے والے بھارتی طیارے کو قندھار ائر پورٹ پر اترنے دیا۔ مراد بھارت کی مدد اور اس ذریعے سے ان سے سفارتی تعلقات قائم کرنا تھا۔ بھارت کا مسافر جہاز 22دسمبر 1999 کو یرغمال بنایا گیا تھا۔ طیارے نے نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو سے نئی دہلی کے لیے اُڑان بھری تھی۔ جس میں 213مسافر سوار تھے۔ طیارہ پہلے پہل بھارت کے امرتسر ائرپورٹ پر اُترا، جس کے بعد لاہور ائر پورٹ پر تیل بھر کر افغانستان کی حدود میں داخل ہوا۔ وہاں سے براستہ ایران عرب امارت کی طرف پرواز کی۔ وہاں سے دوبارہ افغانستان کی حدود میں داخل ہوا۔ صبح ہوتے وقت قندھار ائر پورٹ پر لینڈنگ کی۔ ہائی جیکروں نے بھارت میں قید مولانا مسعود اظہر اور چند دوسرے پاکستانی اور کشمیری قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔ نیز تاوان بھی طلب کیا تھا۔ لیکن طالبان کی حکومت نے تاوان کی ضمن میں ان کی مدد سے صاف انکار کر دیا۔ ملا محمد عمر کے ترجمان ملا عبدالحئی مطمئن بیان کرتے ہیں کہ: ’’پاکستان کی طرف سے ان کو اطلاع دی گئی تھی کہ یرغمال طیارہ بھارت کا ہے اور ساتھ درخواست کی کہ اسے افغانستان میں اترنے کی اجازت نہ دی جائے کیونکہ اس طرح پاکستان کے ساتھ ساتھ افغانستان کے لیے بھی مسائل پیدا ہوں گے۔ جب ملا محمد عمر کو پاکستان کی حکومت کی درخواست کی خبر ہوئی تو انہوں نے اس کے برعکس طیارہ قندھار ائر پورٹ پر اتارنے کی اجازت دے دی۔ وزیر خارجہ وکیل احمد متوکل اور چند دوسرے حکومتی ذمے داران نے بھی اندیشہ ظاہر کیا کہ اگر طیارہ اتارنے کی اجازت دی گئی تو اس کے نتائج طالبان حکومت کے لیے اچھے نہیں ہوں گے اور پاکستان بھی اس کی مخالفت کر رہا ہے۔ ملا محمد عمر کا جواب یہ تھا کہ یہ میرا فیصلہ ہے اور ہم اپنی حکومت اور ملک کے لیے اہداف رکھتے ہیں۔ اور کہا کہ ہائی جیکر مسلمان ہوئے تو ان کی جائز مدد کریں گے اور اگر ہندو ہوئے تو بھارت کی حکومت کے حوالے کر دیں گے۔ تاکہ بھارت کے ساتھ اسلامی امارت کے تعلقات قائم ہوں۔ بھارت بھی چاہتا تھا کہ طیارے کو افغانستان میں اترنے کی اجازت دی جائے‘‘۔ چناںچہ 27دسمبر 1999ء کو پچاس افراد پر مشتمل بھارتی وفد اقوام متحدہ کے طیارے میں قندھار پہنچا۔ وفد کی قیادت اس وقت کے بھارتی وزیر خارجہ جسونت سنگھ کر رہے تھے۔ وہ مولانا مسعود اظہر، مشتاق عمر اور سید عمر شیخ کو بھی ساتھ لائے تھے۔ وکیل احمد متوکل نے ایک بار پھر تجویز دی کہ ہائی جیکروں کو ریڈ کراس کے حوالے کیا جائے۔ مگر ملا محمد عمر نے ان کی اس تجویز کو رد کر دیا۔ اور کہا کہ یہ ہائی جیکروں سے کیے گئے عہد کے منافی ہے۔ سارے مسافر بحفاظت وفد کے حوالے ہوئے۔ روس اور امریکا سمیت کئی ممالک نے طالبان حکومت کی کاوشوں اور اقدام کو سراہا۔ جسونت سنگھ نے افغان وزیر خارجہ وکیل احمد متوکل کو بھارتی دورے کی دعوت بھی دی۔ اور افغان حکومت کا شکریہ بھی ادا کیا۔