(انتخابات‘ سقوط ڈھاکا اور بھٹو کا دورِ حکومت(باب دواز دہم

468

شملہ سمجھوتہ اوربنگلہ دیش نا منظورمہم
صدر بھٹو نے شملہ میں بھارتی وزیراعظم مسز اندرا گاندھی سے مذاکرات سے قبل اور اپنی روانگی سے پہلے مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کو مری میں ملاقات کی دعوت دی‘ تاکہ وہ مذاکرات کے سلسلے میں قومی مسائل پرسیاسی جماعتوں کا نقطہ نظر معلوم کرسکیں۔ جماعت اسلامی کے قائم مقام امیر میاں طفیل محمد نے ۲۰؍ جون ۱۹۷۲ء کو صدر صاحب سے ملاقات کی اور جماعت کا نقطہ نظر ان پر واضح کردیا کہ جماعت اسلامی‘ نام نہاد بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے اور بھارت سے اپنے غصب شدہ حقوق کی بازیابی کے بغیر‘ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کرنے کو غلط اور سخت نقصان دہ سمجھتی ہے۔ جون ۱۹۷۲ء کے آخری ہفتے میں شملہ میں پاکستانی وفد سے ہندوستانی وفد کے مذاکرات کے کئی دور ہوئے اور بالآخر صدر صاحب نے معاہدہ شملہ کی صورت میں ایک ایسی دستاویز پر دستخط کردیئے‘ جس میں جموں و کشمیر‘ جونا گڑھ‘ ماناووار اور منگرول کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ بلکہ کسی مسئلے پر جنگ نہ کرنے کا عہد شامل تھا اور عالمی فورم کے بجائے صرف باہمی مذاکرات کے ذریعے مسائل کو حل کرنے کا پابند کیا گیا تھا۔
سندھ کے لسانی فسادات
جولائی میں حکومت سندھ نے سندھی کو سندھ کی سرکاری زبان بنانے کا بل صوبائی اسمبلی سے منظور کرایا‘ جس کے خلاف اردو بولنے والے افراد نے جو کراچی‘ حیدرآباد‘ سکھر اور دیگر شہروں میں اکثریت میں تھے۔ سخت احتجاج کیا۔ اس مسئلے کو مذاکرات اور سکون سے سلجھانے کے بجائے اشتعال انگیز بیانات دیئے گئے‘ جس نے حکومت کے خلاف منافرت اور تعصب کی فضا پیدا کردی‘ شہری زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی اور شدید ہنگامے پھوٹ پڑے۔ کراچی‘ حیدرآباد اور سکھر اور دیگر شہروں میں کئی کئی دن کرفیو نافذ کرنا پڑا۔ ان ہنگاموں میں ۵۵ افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ سینکڑوں دکانیں لوٹ لی گئیں یا نذر آتش کردی گئیں۔ اندرون سندھ سے ہزاروں لوگ اپنے گھر بار چھوڑ کر شہری علاقوں کی طرف ہجرت پر مجبور ہوگئے۔ شکارپور سے دادو تک دریائے سندھ اور بلوچستان کا درمیانی علاقہ نئی سندھی آبادی سے قریب قریب خالی ہوگیا۔ لاڑکانہ شہر کی ۳۵‘ ۴۰ ہزار کی اردو بولنے والی آبادی میں سے صرف ۴ یا ۵ ہزار لوگ باقی رہ گئے باقی نقل مکانی کرگئے۔ رہ جانے والے بھی وہ لوگ تھے جو بے چارے نقل مکانی کی استطاعت نہ رکھتے تھے۔
ان لسانی فسادات کو فرو کرنے میں جماعت اسلامی نے انتہائی مثبت اور تعمیری کردار ادا کیا۔ جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر اور رکن قومی اسمبلی پروفیسر عبدالغفور صاحب کو حکومت نے لسانی مسئلہ کے مذاکرات میں شرکت کی دعوت دی اور وہ ان مذاکرات میں سمجھوتہ ہونے تک برابر شریک رہے۔ سمجھوتے کے مطابق سندھی اور اردو دونوں کو سندھ کی سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا‘ جبکہ اس کے برعکس پاکستان کے باقی ماندہ تینوں صوبوں پنجاب‘ سرحد اور بلوچستان کی حکومتیں پہلے ہی اردو کو اپنے صوبوں کی سرکاری زبان قرار دے چکے تھے۔
قائم مقام امیر جماعت میاں طفیل محمد نے دو مرتبہ سندھ کا تفصیلی دورہ کیا اور نئے اور پرانے سندھیوں سے ملاقاتیں کیں‘ ان کے مشترکہ اجتماعات سے خطاب کیا۔ اسلامی قومیت اور بھائی چارے پر مبنی ملی اور دینی تقاضوں کی اہمیت کو واضح کیا‘ جس کے بہت مثبت اثرات مرتب ہوئے۔
مولانا مودودیؒ ۔بھٹو ملاقات
اگست ۱۹۷۲ء کے آخری ہفتے میں صدر بھٹو صاحب نے امیر جماعت اسلامی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ سے ملاقات کی خواہش کی۔ یہ ملاقات ۵؍ ستمبر ۱۹۷۲ء کو لاہور کے گورنر ہائوس میں ہوئی۔ اس ملاقات میں صدر صاحب نے مولانا سے سوال کیا کہ:’’ جماعت اسلامی کی اُن سے تصادم کی پالیسی کب تک جاری رہے گی‘‘؟ مولانا نے جواب دیا:’’ ہماری تو کسی سے تصادم کی پالیسی نہیں ہے۔ جب تک آپ کی پارٹی اکثریت میں ہے اور برسراقتدار ہے‘ ہم غیر جمہوری یا تشدد کے طریقوں سے آپ کو ہٹانے کی کوشش نہیں کریں گے۔ لیکن حزب اختلاف کے طور پرہمارا یہ آئینی اور جمہوری حق ہے کہ حکومت کی غلط پالیسیوں پر اسے ٹوکیں اور تنقید کریں۔ اگر حزب اقتدار اور حزب اختلاف اپنی اپنی حدود میں رہ کر کام کریں تو ان کے درمیان کسی تصادم کا کوئی خطرہ نہیں‘‘۔اس ملاقات میں امیر جماعت نے بنگلہ دیش کے متعلق جماعت کے موقف کی وضاحت کی اور ملک کو درپیش خطرات بیان کئے اور ان کے سدباب کے لیے ان کی توجہ اس طرف مبذول کرائی۔
اس سے پہلے جماعت اسلامی نے ۲۵؍ اگست کو یوم احتجاج منانے کی اپیل کی تھی۔ اسی روز لاہور میں حکومت کے خلاف ایک بڑا مظاہرہ اور احتجاجی جلسہ ہوا۔ جس سے نوابزادہ نصر اللہ خان‘ یاسین وٹو‘ رانا خداداد خان‘ مولانا عبدالستار نیازی‘ حافظ احسان الٰہی ظہیر‘ سید عطا المومن بخاری کے علاوہ جماعت کے قیم میاں طفیل محمد نے خطاب کیا اور گرفتار شدہ افراد کو رہا کرنے‘ ڈیفنس آف پاکستان رولز کو ختم کرنے اور ملک میں صحیح دستوری حکومت لانے کا مطالبہ کیا۔
(جاری ہے)