نوابشاہ،سرکاری اسکولوں زبوں حالی کا شکار ،ڈپٹی ڈائریکٹر کی پوسٹ 2 سال سے خالی

485

نوابشاہ (سٹی رپورٹر) ضلع بے نظیر آباد میں تعلیم کی زبوں حالی کی ذمے دار سندھ حکومت ہے، والدین کا شکوہ بیشتر سرکاری اسکولوں میں بنیادی سہولیات بھی میسر نہیں، 2 سال سے ڈپٹی ڈائریکٹر کی پوسٹ خالی ہے، جس پر تا حال تقرر نہیں ہوسکا، والدین کا اس سلسلے میں کہنا ہے محکمہ تعلیم بے نظیر آباد پر وزیراعلیٰ سندھ کو خصوصی توجہ دینی کی ضرورت ہے کیونکہ تعلیم کسی بھی ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے، مگر شاید ہمارے ملک کی وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس حقیقت سے ناواقف ہیں۔ بالخصوص صوبہ سندھ میں محکمہ تعلیم کی حالت ابتر ہے اور ابتر سے ابتر ہوتی جارہی ہے۔ اندرون سندھ میں تعلیمی اداروں کا سرے سے کوئی نام و نشان موجود ہی نہیں ہے، جہاں تعلیمی ادارے موجود ہیں وہاں سہولیات کا فقدان ہے اور جہاں سہولیات دستیاب ہیں وہاں اساتذہ غائب ہیں۔ سندھ حکومت کی طرف سے تعلیم کے شعبے میں ہنگامی حالت کے نفاذ کے باوجود صورتحال بدستور خراب ہوتی نظر آرہی ہے۔ ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ مختلف ادوار میں حکومتوں نے تعلیم کے شعبے کی بہتری کے لیے زبانی جمع خرچ کیا لیکن عملی اقدامات کم نظر آتے ہیں، جس کی سب سے بڑی مثال تعلیم کے بجٹ میں قومی مجموعی پیداوار کا 2 فیصد سے بھی کم خرچ کیا جاتا ہے۔ سندھ پاکستان کا واحد صوبہ ہے، جہاں تعلیم معیار نہیں سرکاری اسکولوں میں تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ پرائیویٹ اسکول بھاری فیسوں کی مد میں تعلیم فراہم کررہے ہیں۔ ہر ملک کی ترقی کا انحصار اس ملک کے تعلیم یافتہ اور باشعور لوگوں پر ہوتا ہے۔ پاکستان میں خصوصاً سندھ میں نظام تعلیم بالکل تباہ ہوگیا ہے، اس کو بہتر بنانے کے لیے ہمیں سیاست سے آزاد ہو کر اجتماعی سطح پر کوشش کرنی ہوگی۔ اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنا ہوگا تاکہ نظام تعلیم کو بہتر بنایا جاسکے اور اس مغلوب نظام تعلیم کو ان جہلا کے چنگل سے آزاد کروایا جاسکے۔ عوام سے تعلیم چھین کر انہیں مزید جہالت کے اندھیرے میں دھکیل کر انہیں ذہنی غلام بنانا ہی ان کی سیاست کا اصل مقصد ہوتا ہے اور تعلیم کے نام پر سیاست کی جارہی ہے اور تعلیم کے نام پر ووٹ بٹورے جارہے ہیں۔ سندھ میں تعلیمی ایمرجنسی کی صورت حال بہت خراب ہیں۔ صوبے کے 50 فیصد بوائز اور 47 فیصد گرلز پرائمری اسکولز بیت الخلا سے محروم ہیں۔ 53 فیصد بوائز اور 54 فیصد گرلز پرائمری اسلولز پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔ والدین کا کہنا ہے کہ معیار تعلیم وتربیت یافتہ تدریسی عملے کی کمی کے باعث ورلڈ اکنامک فورم (World Economic Forum) کے گلوبل کیپیٹل رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کے 130 ممالک کی فہرست شرمناک طور پر 125ویں نمبر پر ہے۔ دوسری جانب ماہرین تعلیم بے نظیر آباد کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سیاسی عدم و استحکام کی وجہ سے تعلیم، صحت اور اقتصادی منصوبہ بندی جیسے اہم امور پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی جارہی جس کی وجہ سے مجموعی طور پر ملک میں بہتر حکمرانی قائم نہیں ہوسکتی۔ ماہرین تعلیم کا کہنا ہیے کہ کراچی تا کشمور ہزاروں سے زائد اسکولز بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ عمرکوٹ، میرپورخاص، مٹیاری، سانگھر، تھرپارکر کے اسکولوں کی حالتیں بہت زیادہ خراب ہیں اور یہ ہی نہیں سندھ کے دوسرے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں لاکھوں بچے آسمان اور خستہ تباہ حال اسکولوں کی عماروں میں تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں جو کسی بھی وقت بڑے حادثے کا سبب بن سکتا ہے۔ ہزاروں معصوم بچے خوف کے عالم میں تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔ صوبہ سندھ سیاسی اور معاشی سرگرمیوں کے اعتبار سے پاکستان میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے، حکومت سندھ کی توجہ تعلیم پر بالکل بھی نہیں ہر کوئی ہر وقت اپنی کرسی بچانے اور اپنی جیپ کو بھرنے میں مصروف عمل رہتا ہے۔ حکمران اپنے شاہانہ خرچ کے بجائے سندھ میں تعلیم کی بہتری پر توجہ دیں۔ حکومت سندھ شرح خواندگی میں اضافے اور تعلیم کے فروغ کے لیے عملی جدوجہد کریں۔ ملکی ترقی کے عمل کی تکمیل کے لیے ہم اپنی آنی والی نسلوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے ٹھوس عملی اقدامات کر رہے ہیں۔ شرح خواندگی میں اضافے اور تعلیم کے فروغ کے لیے مل کر جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔